نقطہ نظر

'فوٹو شاپ' اردو میڈیا بمقابلہ حبیب یونیورسٹی

چند اردو اخبارات نے امریکی مسلمانوں کو درپیش مسائل پر حبیب یونیورسٹی کے سیمینار کو اسرائیلی حمایت میں سیمینار قرار دیا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں موجود دائیں بازو کے خبر رساں اداروں میں کیا چیز یکساں ہے؟ دونوں ہی ترقی پسند آوازوں کو برداشت نہیں کرتے، حتیٰ کہ نفرت اور خوف پھیلانے کے لیے جھوٹی ویڈیوز اور تصاویر تک استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتے.

حال ہی میں حبیب یونیورسٹی میں مذہب اور ثقافت کے متعلق ہونے والا سیمینار مقامی پریس کے کچھ حصوں کو ناگوار گزرا، اور انہوں نے اس تقریب سے متعلق تصاویر فوٹو شاپ کر دیں تاکہ سیمینار کو منفی انداز میں پیش کیا جائے۔ نتیجتاً حبیب یونیورسٹی پر اسرائیل کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز ہوگیا۔

پاکستان میں جعلی تصاویر اور غلط رپورٹنگ ہندوستان میں بی جے پی نواز خبر رساں اداروں کی رپورٹنگ سے کچھ مختلف نہیں ہے، جنہوں نے فروری کے اوائل میں جعلی وڈیوز کے ذریعے جواہر لال یونیورسٹی کے بائیں بازو کے طلبہ رہنماؤں پر ملک سے بغاوت کا الزام لگانے کی کوشش کی تھی۔

14 اپریل کو حبیب یونیورسٹی نے اسلامی علوم کی ماہر امریکی اسکالر پروفیسر مارشیا ہرمینسن کو اپنے پاس دعوت دی جنہوں نے "ثقافتی دنیائیں/ثقافتی جنگیں: ثقافت کے کردار پر ہم عصر امریکی مسلماںوں کا نکتہء نظر" کے موضوع پر لیکچر پیش کیا. لیکچر اس حوالے سے تھا کہ امریکی مسلمان کس طرح مذہبی عدم برداشت اور اسلامو فوبیا (اسلام کا خوف) کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس تقریب کے فلائیر میں دکھایا گیا ہے کہ دو مسلمان نیویارک کے سب وے اسٹیشن پر ایک اشتعال انگیز اشتہار کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ (مندرجہ ذیل) تصویر اسلامو فوبیا کی درست ترجمانی پیش کرتی ہے جس کا سامنا امریکی مسلمان اور پروفیسر ہرمینسین جیسے دانشور کر رہے ہیں۔

سیمینار کا اصل پوسٹر

تصویر میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی مسلمان عوامی مقامات پر اپنے اور اپنے ہم مذہبوں کے خلاف انتہاپسند گروپوں کی جانب سے چلائی جانے والی اشتعال انگیز مہمات کا سامنا کرتے ہیں.


ایک ایسا سیمینار، جہاں امریکی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو واضح کیا گیا ہو، اسے آپ اسرائیل کی حمایت میں منعقد کردہ ایونٹ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ اس کے لیے دانشورانہ بد دیانتی اور انتہائی درجے کے تعصب کی ضرورت ہے۔


آئیے دیکھیں کہ کس طرح اس مقصد کو حاصل کیا گیا۔

ایک مقامی اخبار کے رپورٹر نے تقریب کے بارے میں جھوٹی خبر بنائی جس میں اس ایونٹ کو ''سپورٹ اسرائیل، ڈفیٹ جہاد'' (اسرائیل کی حمایت کریں، جہاد کو شکست دیں) قرار دیا گیا۔ اس اخبار نے ایونٹ کے پوسٹر میں سے نیویارک کے سب وے پر چسپاں اشتعال انگیز اشتہار کو فوٹو شاپ کی مدد سے کاٹ کر علیحدہ کیا، اور اس کٹے ہوئے حصے کو ایونٹ کا پوسٹر قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سیمینار اسرائیل کی حمایت میں تھا. حالانکہ ایسا نہیں تھا.

خبر میں آگے جا کر حبیب یونیورسٹی پر ''قومی مفادات'' کے خلاف کام کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔

ایک اور مقامی اخبار نے بھی اسی فوٹو شاپ کی گئی تصویر کے ساتھ اداریہ شائع کیا، جس میں حبیب یونیورسٹی پر ''نظریہ پاکستان'' کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا گیا۔

مقامی اخبارات میں فوٹو شاپ کی مدد سے کراپ کردہ اس تصویر کو ایونٹ کا پوسٹر قرار دیا گیا.

ان اخبارات نے جان بوجھ کر حجاب اوڑھے خاتون اور داڑھی رکھے ہوئے مرد کو تصویر سے نکال دیا جو نیو یارک سب وے اسٹیشن پر اس اشتہار کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

جب متاثرہ یونیورسٹی نے سوشل میڈیا پر آ کر اپنا مؤقف بیان کیا تب جا کر ان میں سے ایک اخبار نے غلط اطلاعات پر مبنی اپنی گذشتہ خبر کو دوبارہ حقائق کی روشنی میں شائع کیا۔ حالانکہ یہ ایک قابل تعریف عمل ہے، مگر پہلے غلط خبر شائع کرنے کے پیچھے اخبار کے مقاصد مشکوک ہی رہے۔

'کلچر کے کردار پر امریکی مسلمانوں کے نکتہ نظر' کے موضوع پر پروفیسر ہرمینسن کے لیکچر کے لیے نیو یارک میں مسلمان مخالف اشتہار نے پس منظر کا کام کیا۔

پروفیسر ہرمینسن نے اپنی تمام زندگی اسلام پر تحقیق کرتے ہوئے گزاری ہے۔ انہوں نے اسلامی عقائد، مسلم ثقافت اور مسلمان خواتین پر سینکڑوں تحقیقی مضامین اور کتابیں لکھی ہیں۔

وہ شاہ ولی اللہ اور جنوبی ایشیاء کے صوفیاء کرام پر دہائیوں پر مشتمل تحقیقی کام کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے امریکی مسلمانوں کی جدوجہد پر ان کے لیکچر کی حمایت کی۔

انہوں نے جو لیکچر دیا وہ پاکستان میں اسرائیل کے لیے مہم آغاز کرنے کی ایک خفیہ کوشش نہیں تھی، بلکہ امریکا میں مسلمان جس طرح تعصب کی مزاحمت کر رہے ہیں، اسے واضح کرنے کا ایک کھلم کھلا اقدام تھا۔

اسرائیل کی حمایت میں اشتعال انگیز اشتہار سب سے پہلے سین فرانسسکو میں نظر آیا اور اس کے بعد ستمبر 2012 میں نیویارک میں دکھائی دیا۔ بلکہ نیویارک شہر کی ٹرانسپورٹ انتظامیہ (ایم ٹی اے) نے تو یہ اشتہار اپنے اسٹیشنز پر لگانے سے بھی انکار کر دیا تھا، مگر جب پوسٹر کے پیچھے موجود تنظیم نے مقدمے میں کامیابی حاصل کی، تو ایم ٹی اے کو نہ چاہتے ہوئے بھی پوسٹر لگانا پڑا۔

دائیں بازو کے خبر رساں اداروں اور قومی نظریے کے خود ساختہ محافظوں کا حبیب یونیورسٹی کے خلاف زہر اگلنے اور اسرائیلی حمایت کے مؤقف کا جھوٹا الزام لگانے کا واقعہ اپنی نوعیت میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے.

پاکستانی میڈیا میں اخلاقی اقدار کی عدم موجودگی کی وجہ سے اردو اخبارات معمولاً واقعات کی جھوٹی/غلط خبریں شائع کرتے ہیں۔ نمائندے 'نامعلوم ذرائع' کا حوالہ دے کر 'سازشیں بے نقاب' کرتے ہیں. انتہائی خراب صورتحال تب ہوتی ہے جب میڈیا افراد اور اداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا ہے۔

نفرت کی مہم کا شکار بننے والی حبیب یونیورسٹی ایک ادارے کی شکل میں ایک قیمتی ہیرے کے مترادف ہے۔ یونیورسٹی کا قیام حبیب خاندان کی جانب سے تحفتاً دی گئی 4 کروڑ ڈالرز کی کثیر رقم سے عمل میں آیا۔

یونیورسٹی کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ یہ اپنے طلبہ کو مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مساوی تعلیم دے رہی ہیے۔ حبیب یونیورسٹی کارنیگی میلن اور ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی جیسے عالمی معیار کے اداروں کی شراکت دار ہے۔ تقریباً تمام ضرورتمند طلبہ کو اسکالر شپس دی جاتی ہیں تاکہ مالی وسائل کی کمی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ نہ بنے.

ایک بے مثال تعلیمی ادارے کی تائید کرنے کے بجائے دائیں بازو کا میڈیا کچے ذہنوں کو یونیورسٹی کے خلاف بھڑکا رہا ہے۔

عدالتوں کو چاہیے کہ جھوٹی خبروں کی اشاعت کے خلاف قوانین کا استعمال کریں، اس سے پہلے کہ مشتعل ہجوم یونیورسٹی کی جانب مارچ کرنا شروع کر دیں.

انگلش میں پڑھیں.

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔