تبدیلی کا نعرہ لگانے والے، تبدیل نہ ہو پائے
اسلام آباد: اگر دیکھا جائے تو پاکستان تحریکِ انصاف(پی ٹی آئی) کو اپنی 20ویں سالگرہ منانے کا اس سے بہتر وقت نہیں مل سکتا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ شریف خاندان پاناما پیپرز کے بے پناہ دباؤ میں ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی تحقیقات کا شور مچا رہی ہیں، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ وہ رائے ونڈ میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر اُس وقت تک دھرنا دیں گے جب تک ان کی آف شور کمپنیوں کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ پورا نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ روز پارٹی کا ایک نیا نعرہ 'کرپشن سے چھٹکارا، عمران خان نے پکارا' سننے کو ملا جس سے پارٹی کی سمت میں تبدیلی اور اس کی سماجی انصاف کی جڑوں میں واپسی دیکھی گئی۔
پی ٹی آئی کا سفر جس نے اُسے موجودہ پارلیمنٹ کی 3 بڑی قوتوں میں سے ایک بنایا ہے، بالکل بھی آسان نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کاسندھ میں انسدادکرپشن تحریک کااعلان
ہر قسم کے حالات میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنے والے عمران خان کے ترجمان نعیم الحق نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ 'وہ 126 دن کا دھرنا جو 2013 کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف شروع کیا گیا تھا، عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا' اور ان کے مطابق اس دھرنے نے 'پی ٹی آئی کو زیادہ نقصان پہنچایا'۔
لیکن یہ بڑا مظاہرہ اپنے ساتھ کچھ نقصانات بھی لایا اور اس طویل دھرنے نے عمران خان کی ساکھ کو سیاسی طور پر ناقابلِ اعتبار اور ایک بے قابو شخص کے طور پر پیش کیا۔
قبل ازیں پی ٹی آئی نے 2013 کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کچھ ریلیاں نکالی تھیں، مگر جون 2014 میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے 12 کارکنان کی ہلاکت کو مدِ نطر رکھتے ہوئے انہوں نے حکومت کے خلاف آواز بلند کی۔
عمران خان کے ناقدین کے مطابق، اگست 2014 کا لانگ مارچ اور دھرنا اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر کیا گیا تھا۔ اس نظریے کو تقویت اُس وقت ملی جب دھرنے کے دوران پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی نے استعفیٰ دے دیا۔
سابق وزیر اسحاق خاکوانی، جنہوں نے پہلے جنرل مشرف کے لیے بھی کام کیا اور بعد میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، کا کہنا تھا کہ اگر ذوالفقارعلی بھٹو کے اقتدار میں آنے سے موازنہ کیا جائے تو مٹھی بھر افراد کی 20 سالہ کاوش، لاکھوں کی تحریک میں بدل گئی۔
ایسے میں جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی سیاست میں پارٹی (پی ٹی آئی) کا کردار بڑھتا جا رہا ہے، وہ پھر بھی نئی سیاسی ثقافت کو سامنے لانے میں ناکام ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کی سب سے بڑی فتح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جگہ لینا ہے
کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی کے رہنما کی طرح عمران خان بھی مجبور ہیں کہ وہ پرانے سیاستدانوں اور ووٹ بینک رکھنے والے سیاست دانوں پر بھروسہ کریں۔ اس طریقہ کار سے عمران خان کو دوست اور دشمن، دونوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کا 'جسٹس وجیہہ ٹریبونل' تحلیل
اتنی ساری کوششوں کے باوجود، عمران خان پارٹی کے اندر شفاف جمہوری نظام متعارف نہیں کروا پائے۔ پی ٹی آئی کے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن، مئی 2013 کے عام انتخابات سے قبل ہوئے، جسے بعد میں پارٹی کے اپنے الیکشن کمشنر سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کی جانب سے تحفظات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم بعدازاں سابق جج نے بھی اُس وقت پارٹی سے اپنی راہیں الگ کرلیں جب ان کی سفارشات کو نظرانداز کردیا گیا۔
پی ٹی آئی کے دوسرے انٹرا پارٹی الیکشن کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب گزشتہ ماہ پارٹی کے دوسرے الیکشن کمشنر اور سابق بیوروکریٹ تسنیم نورانی نے اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ پارٹی کے رہنما ان کے کردار کو کمزور کررہے تھے۔
عمران خان نے فوراً انتخابات کو مؤخر کردیا اور اس کی وجہ پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف تحریک بتائی، لیکن اختلافات کے بیج پارٹی کے اندر بو دیئے گئے۔ رواں ماہ کے آغاز میں سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین کو تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔