پاکستان

ایم کیو ایم کا وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا ختم

متحدہ نے کراچی پریس کلب کےدھرنےکارخ وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب موڑدیا تاہم سندھ حکومت سے کامیاب مذاکرات کےبعداسےختم کردیاگیا

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا کارکنوں کی بلاجواز گرفتاری، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی اور کارکنوں کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا گیا تاہم حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد اسے ختم کردیا گیا۔

اس سے قبل کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے باہراحتجاجی دھرنا دیا گیا جس کے بعد کارکنوں اور رہنماؤں نے وزیراعلیٰ ہاؤس کا رخ کیا تھا۔

وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر ایم کیو ایم رہنما کنور نوید جمیل نے کہا کہ جب وزیراعلیٰ سندھ کا کوئی نمائندہ نہیں آیا تو سی ایم ہاؤس جانے کا فیصلہ کیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے احتجاجی دھرنے میں رابطہ کمیٹی کے سینئرز ڈپٹی کنوینئرز، ڈپٹی کنوینئرز ، رابطہ کمیٹی کے اراکین ، حق پرست اراکین قومی وصوبائی اسمبلی ، نامزد حق پرست میئر کراچی ، ڈپٹی میئر ، منتخب بلدیاتی نمائندے اور کارکنان کے اہل خانہ بھی شریک ہوئے۔

دوسری جانب ڈان نیوز کے مطابق ترجمان وزیراعلیٰ سندھ وقار مہدی کا کہنا ہے کہ قائم علی شاہ خیرپورمیں ہیں۔

پریس کلب کے باہر دھرنے کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر اور رکن قومی اسمبلی کنور نوید جمیل نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران ایم کیو ایم کے 5000 کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور ان میں سے جو کارکن رہا ہوئے ان پر شدید تشدد کیا گیا تھا جبکہ 173اب تک لاپتہ ہیں، ان میں 1992 میں لاپتہ ہونے والے 28کارکنان شامل نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ ستمبر 2013 میں کراچی میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا تھا، دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم نے اس آپریشن کی حمایت کی تھی تاہم بعد ازاں اس کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا رہا کہ آپریشن میں اس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسی وجہ سے ایم کیو ایم نے سینیٹ، قومی اور سندھ اسمبلی سے استعفیٰ بھی دیا تھا لیکن 2 ماہ بعد استعفے واپس لے لیے گئے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کنور نوید جمیل کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے گرفتار 1200 کارکنان اب بھی جیلوں میں موجود ہیں۔

کنور نوید جمیل میڈیا کو بریفنگ دے رہے ہیں— فوٹو: بشکریہ MQM.org

ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کی حالیہ دنوں میں بنائی گئی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر کا کہنا تھا کہ 3 مارچ کو اسٹیبلشمنٹ کی بنائی گئی جماعت کو کراچی میں لانچ کرنے کے بعد آپریشن میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 3 مارچ کے بعد سے ایم کیو ایم کے 208 کارکنان کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 71 لاپتہ ہیں اور 25 کارکنان ایسے ہیں جن پر کوئی مقدمہ نہیں تھا لیکن ان کو 90 روز کے لیے رینجرز کی تحویل میں دے دیا گیا۔

واضح رہے کہ مصطفیٰ کمال کی جماعت میں متحدہ قومی موومنٹ کے 6 ارکان اسمبلی شامل ہوچکے ہیں جبکہ روز ہی مختلف ذمہ داران کی جانب سے پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے کی پریس کانفرنسز بھی ہو رہی ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔