فوج میں احتساب
بلا تفریق احتساب کے بیان کے ایک ہی دن بعد جنرل راحیل شریف نے اپنے عزم کی پختگی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک تھری اسٹار جنرل، ایک ٹو اسٹار جنرل، تین بریگیڈیئرز اور ایک کرنل کو ملازمت سے فارغ کر دیا۔
برطرفی کی خبر نے سیاسی بحث میں جگہ ضرور بنانی تھی، اور بنائی بھی۔ مگر کہیں کوئی کمی نظر آتی ہے، اور شاید ایک سوچی سمجھی کمی — ہر معاملے پر فوری ردِعمل دینے والا پاک فوج کا شعبہء تعلقاتِ عامہ اس معاملے پر خاموش رہا۔
باقاعدہ بیان جاری کرنے کے بجائے میڈیا کو گمنام فوجی افسران نے غلط معلومات فراہم کیں۔
ابتدائی خبروں میں افسران کی ایک بڑی تعداد کو کرپشن میں ملوث قرار دیا گیا، مگر بعد میں کارروائی کا نشانہ بننے والے افسران کی تعداد کے حوالے سے وضاحت کر دی گئی۔ لیکن پھر بھی اس حوالے سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں کہ افسران کا جرم کیا تھا، یا تحقیقات کے دوران کیا انکشافات ہوئے تھے۔
لیکن پھر بھی، یہ ایک ابتداء ہے — مجرمان کو اپنے ادارے کی جانب سے ہی مجرم قرار دیا جانا پروفیشنلزم اور احتساب کے ایک نئے عزم کی نشانی ہے۔
اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ فارغ کیے گئے افسران اس صوبے میں تعینات تھے جہاں فوج کے ہی مطابق کئی ریاستی و غیر ریاستی، اور اندرونی و بیرونی عناصر مل کر ملکی سلامتی اور استحکام کے خلاف تاریخی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
فوج نے بلوچستان میں خود جو سکیورٹی ذمہ داریاں اٹھا رکھی ہیں، اور سینیئر افسران جنہیں زندگی و موت کے درمیان فرق بننے والے فیصلے صبح و شام لینے پڑتے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے یہ لازم ہے کہ صوبے میں ایسے افسران کو تعینات کیا جائے جن کی شہرت پر کوئی داغ موجود نہ ہو، اور جو اعلیٰ معیار و کردار کے حامل ہوں۔
جی ایچ کیو کو چاہیے کہ صوبے میں سرحد پر اور مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے والی طرح طرح کی کرپشن کی افواہوں کی بھی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرے۔
اگر ہمیں بیرونی عناصر کو شکست دینی ہے اور مقامی لوگوں کا دل جیتنا ہے تو فوج کی شہرت ہر طرح سے بالکل بے داغ ہونی چاہیے۔
لیکن یہاں پر ملکی سیاسی قیادت کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ تاریخی اور ادارہ جاتی وجوہات کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں فوج کا پلڑہ بھاری رہتا ہے۔
فوج کے سب سے بڑے اثاثوں میں سے ایک یہ ہے کہ اسے عوامی مزاج کی مکمل سمجھ ہے، اور یہ خود کو اس مزاج کے مطابق ڈھال سکتی ہے۔ پاناما پیپرز کے اسکینڈل سے پردہ فاش ہوئے کئی ہفتے گزر چکے ہیں لیکن اب بھی ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہو کہ سویلین قیادت کرپشن کے خلاف اقدامات میں سنجیدہ ہے۔
دوسری جانب فوج کی ایک اندرونی تحقیقات، جو کہ تقریباً ایک سال سے جاری تھیں، ان سے اچانک پردہ اٹھا اور انہیں فوج کے خود کو کرپشن سے پاک رکھنے کے عزم کی مثال کے طور پر پیش کر دیا گیا۔
سیاستدانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حکومت کرنے کا جواز صرف الیکشن جیتنا نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے گورننس بہتر کرنی پڑتی ہے اور جمہوریت کا معیار بلند کرنا پڑتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ پاک فوج نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اس کی سیاسی فہم ملکی سیاستدانوں کی سیاسی فہم سے کہیں زیادہ گہری ہے۔