عمران پریس کانفرنس کررہے ہیں—ڈان نیوز۔
انہوں نے کہا کہ شریف خاندان پر الزام ہم نے نہیں بلکہ بین الاقوامی صحافتی تنظیم نے لگائے ہیں جو سنگین نوعیت کے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم پر اثاثے چھپانے، کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے سنگین الزامات ہیں۔
وزیراعظم کی جانب سے دھرنوں سے ہونے والے ملک کو مبینہ نقصان کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف اگر چار حلقے کھول دیتے تو دھرنا نہ دیتے۔
انہوں نے کہا کہ دھرنا ڈی چوک میں تھا، چین کا اس سے کیا تعلق تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے کہا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقات میں اگر ان پر الزامات ثابت ہوگئے تو وہ خاموشی سے گھر چلے جائیں گے۔
اپنے خطاب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'اگر مجھ پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں کیا قوم سے معافی مانگیں گے؟'
پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے بعد رواں ماہ 5 اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن 3 ہفتوں میں کمیشن کا قیام عمل میں نہیں آسکا۔
گزشتہ ایک ماہ میں وزیر اعظم کا یہ تیسرا جبکہ پاناما لیکس پر دوسرا خطاب تھا۔
پاناما لیکس دو ہفتے قبل آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
مزید کے لیے کلک کریں ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔
مزید پڑھیں : پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کے متعلق انکشافات
آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟ - کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ - کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔ ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس اور حسن نواز کا 1999 کا انٹرویو
برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے اس لیے ضروری نہیں کہ افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف
دستاویزات کے مطابق، وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔
اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ عثمان سیف اللہ پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔
سابق جج ملک قیوم کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔
لیکس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔