نقطہ نظر

'اطاعت شعار' بنانے کے لیے قبرستان میں زیادتی

جگنو خالہ روتے ہوئے وحشت سے کمرے میں ادھر اُدھر اس طرح دیکھ رہیں تھیں جیسے کوئی جانور پنجرے میں کرتا ہے۔

میں بچپن میں گھریلو تشدد کے واقعات دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں اور جب اپنی یادوں کا پنڈورا باکس کھولنے کی کوشش کرتی ہوں تو کچھ ایسی یادیں حملہ آور ہوجاتی ہیں جن کی دردناک ضربیں برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اتنے سالوں بعد جب ان باتوں کو یاد کرتی ہوں تو میرے ذہن میں ان باتوں کا بالکل ہی نیا مفہوم نمودار ہوتا ہے۔

ایک دن میں اپنے نانا کے سامنے کھڑی انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی تو انہوں نے بھی میری طرف دیکھا۔ اچانک ان کا چہرہ پُر شکن ہوگیا اور دعا کی کہ میری شادی ایک اچھے خاندان میں ہو۔ جگنو خالہ کی طرح ہرگز نہیں۔

جب میں نے ان سے اس بات کا مطلب پوچھا تو وہ ان کے شوہر یعنی میرے خالو کے بارے میں بڑبڑانے لگے کہ خالو خالہ سے بدسلوکی کرتے تھے اور انہیں کسی پیر کو دکھانے قبرستان لے گئے تھے۔ انہوں نے اس سے زیادہ کچھ بھی بتانے سے انکار کردیا۔

زندوں کا قبرستان

کچھ سالوں کے بعد (جب میرے نانا کی وفات ہوچکی تھی)، تمام گھر والے ایک جذباتی موقع پر جمع تھے۔ اس دوران میرے والد نے جگنو خالہ کے شوہر پر لعنت ملامت شروع کر دی۔ میری والدہ نے ان کو (میری موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے) چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ "پیر نے جگنو کی زندگی تباہ کر دی"، یہ کہتے ہوئے انہوں نے غصے سے میری والدہ کو پیچھے جھٹک دیا۔

جگنو کے شوہر اپنی بیوی کو زیادہ 'اطاعت شعار' بیوی بنانے کی غرض سے کسی پیر کو دکھانے لے گئے تھے۔

اس (نا)پاک صفت آدمی نے خالہ کو اطاعت شعار بنانے کے لیے خالو کو ان کا کھانا بند کرنے کا مشورہ دیا؛ اور پھر ایک سوچے سمجھے اقدام کے تحت خالو کو خالہ سے قبرستان کے بیچ میں زیادتی کرنے کو کہا۔ اس پیر کا گھر کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے قریب ایک چھوٹے سے قبرستان کے برابر میں واقع تھا۔

پڑھیے: ایماندارانہ بے وفائی

پیر کا دعویٰ تھا کہ یہ عمل کارآمد ثابت ہوگا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

مایوس شوہر کو دلاسا دیتے ہوئے پیر نے خالو کو کہا کہ وہ خود خالہ کو 'ٹھیک' کریں گے۔ اس کے لیے انہیں جگنو خالہ کو صرف ایک ہفتے کے لیے پیر کے ساتھ اکیلا چھوڑنا تھا۔ خالو مان گئے۔

ایک ہفتے کے بعد جب خالو لوٹے تو انہوں نے جگنو کو کمزور اور تابعدار عورت پایا۔ خالو کے اپنے الفاظ میں کہیں تو ایک 'بہترین بیوی'۔

اور طبی زبان میں کہیں تو جگنو خالہ شدید ڈپریشن اور ان کے ساتھ پیش آئے حادثے کے بعد شدید ذہنی صدمے (Post-Traumatic Stress Disorder یا PTSD) میں تھیں۔ جگنو خالہ کی حالت مزید بگڑنے لگی تھی جبکہ خالہ کے گھر والوں نے ان کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ تمام باتیں صرف گھر والوں تک محدود رہیں۔ کوئی بھی جان نہ پایا تھا۔

کوئی بھی مدد کے لیے آگے نہیں آیا

میں غالباً اس وقت پانچ سال کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے کزنز کے ساتھ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی گڑیا سے کھیل رہی تھی، جبکہ میری والدہ اور ان کی بہن آپس میں تند لہجے مگر دبی دبی آواز میں باتیں کر رہیں تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنی گڑیا سے کھیلنے کا دکھاوا کر رہی تھی جبکہ میرے کان ان کی سرگوشیاں سننے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔

کافی رات ہوگئی تھی۔ پورے گھر میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہم تمام لوگ ایک کمرے میں جمع تھے جیسے کسی الہام کے منتظر ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہم کس کا انتظار کر رہے تھے۔

میں جب بھی کوئی سوال پوچھتی تو ڈانٹ کر کہہ دیا جاتا، ''ششش۔ گڑیا کے ساتھ کھیلو۔''

اچانک میری خالہ تیزی سے کمرے سے نکل گئیں اور میری والدہ بھی ان کے پیچھے جانے لگیں۔ میں جیسے ہی کھڑی ہونے لگی تو والدہ نے کہا، ''یہیں ٹھہرو!''۔ میری والدہ نے مجھ سے پہلے کبھی اتنے سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی۔

وہ اپنے درمیان میری دوسری خالہ جگنو کو ساتھ لے کر آئیں، جو اپنے گھر سے بھاگ گئی تھیں۔

پڑھیے:جبری شادی کی ایک بھیانک داستان

بے حال جگنو خالہ اپنی دونوں بہنوں کے سہارے چل رہیں تھیں جبکہ پیچھے سے ماموں سہارا دیے ہوئے تھے۔ انہوں نے خالہ کو بیڈ پر بٹھایا اور احتیاط سے ان کا سر بیڈ کے ہیڈ بورڈ سے لگایا۔ میری بڑی کزن ان کے لیے پانی کا گلاس لے آئیں۔

مجھے خالہ پر پڑنے والی بامعنی پراسرار نظریں، ان پر ہونے والی باتیں اور لاپرواہی سے دیے گئے جواب ہلکے ہلکے یاد ہیں، جن کا مفہوم میرے جیسی کم عمر بچی اس وقت سمجھ نہیں پائی تھی لیکن میری عمر اتنی بھی کم نہیں تھی جو اپنے اردگرد ہونے والے معاملات کو یاد نہ رکھ پاتی۔ میرے ذہن میں موجود ان تصاویر پر گرد پڑ چکی ہے اور کچھ پر تو دراڑیں پڑچکی ہیں جن میں زنگ بھر چکا ہے۔ جس وجہ سے ان تصاویر کو پہچاننا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جگنو خالہ بیڈ پر لٹانے کے ساتھ ہی بے ہوش ہوگئیں تھیں۔ میری والدہ خالہ کے منہ میں پانی ڈال رہیں تھیں جبکہ میری دوسری خالہ ان کے بے جان سے سر کو سیدھا پکڑے ہوئے تھیں تاکہ پانی حلق سے اتر سکے۔ گھر کے تمام بڑے ان کے بیڈ کے گرد جمع ہو گئے تھے اور خالہ سے دبی دبی آوازوں میں حوصلہ افزائی اور سہارے کی باتیں کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ لوگ کمرے کے دوسرے حصوں میں چلے گئے تاکہ خالہ آرام کر سکیں۔

جگنو خالہ کے ساتھ ان کا بیٹا بھی آیا ہوا تھا۔ چار سالہ ایک گول مٹول لڑکا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں بیڈ پر پڑی اپنی ماں کے زرد چہرے کو دیکھ کر سہمی ہوئی تھیں۔ ہم اس کے گرد جمع ہوگئے اور اپنے کھلونے دکھا کر اس کا دھیان ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔

قریب 20 منٹ کے بعد وہ چیختے ہوئے جاگیں۔ میری والدہ اور خالہ ان کی طرف دوڑیں اور اپنی بانہوں سے کس کر پکڑ لیا۔

جگنو خالہ باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاگلوں کی طرح ''بابا!''، ''بابا آئے ہیں!'' کہنے لگیں۔ وہ کہہ رہیں تھیں کہ نانا کمرے کے باہر کھڑے ہیں۔

میں یہ سن کر نانا کو دیکھنے کے لیے دوڑتی ہوئی ان سے ملنے باہر گئی، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں اداس ہو کر واپس کمرے میں لوٹ آئی جہاں والدہ اور خالہ جگنو خالہ کو تسلیاں اور دلاسے دے رہی تھیں۔ ''بابا یہاں نہیں ہیں۔ ششش۔۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ بابا یہاں نہیں ہیں۔''

مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بابا سے خوفزدہ تھیں۔ مگر کیوں؟ میرے نانا کو جہاں تک میں جانتی ہوں، وہ تو ایک بہت ہی اچھے انسان تھے جنہوں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ میں بیڈ کے قریب آ کر ان کی نظروں سے بچتے ہوئے باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میری خالہ جگنو خالہ کو پناہ دینے کا وعدہ کر رہیں تھیں۔

جگنو خالہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ وحشت سے کمرے میں ادھر اُدھر اس طرح دیکھ رہیں تھیں جیسے کوئی جانور پنجرے میں کرتا ہے۔ انہوں نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا کہ، ''مہربانی کر کے انہیں مجھے واپس لے جانے مت دینا۔''

یکایک ان کی نظریں مجھ پر ٹھہریں اور آگے آنے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ انہوں نے میرے چہرے کو چوما، آنسو ان کے بوسے کو گیلا کر رہے تھے جو ایک پانچ سالہ بچی کو ناگوار گزرتا ہے۔ اس کے بعد وہ میری والدہ سے مخاطب ہوئیں اور ہمیشہ میرا خیال رکھنے کا وعدہ لیا۔ میری والدہ رونے لگیں اور حامی بھری۔ انہوں نے آخری بار مجھے گلے لگایا اور پھر جانے دیا۔ میں اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔

میری خالہ جگنو خالہ کے بیٹے محمد کے پاس آئیں اور کہا، ''تم کتنے بہادر لڑکے ہو! تم بہادر لڑکے ہونا؟ تم اپنی ماں کا خیال رکھو گے، رکھو گے نا؟''

اور چار سالہ بچہ وعدہ کرنے سے پہلے اٹھا اور بیڈ پر چڑھ گیا؛ اس کی بڑی بڑی آنکھیں بری حالت میں پڑی اپنی مسلسل روتی ہوئی ماں پر جمی ہوئیں تھیں۔

تشدد سے کسی کو مسئلہ نہیں

آئیے بات کرتے ہیں اس دن سے 25 سال بعد کی، جب ایک بار پھر ہم سب ملے؛ اس بار حالات بالکل مختلف تھے۔ میرے نانا کی وفات ہوچکی تھی اور پورا خاندان ان کی تعزیت کے لیے پرانے گھر میں جمع تھا۔

جگنو خالہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ آئیں۔ ان کی زندگی بدل چکی تھی۔

اب ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی — جن میں سے دو ٹین ایجرز تھے۔ ان کے شوہر یعنی میرے خالو کا رنگ پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ سیاہ پڑ گیا تھا۔ ان کی جلد پر غیر فطری روکھاپن تھا اور ان کی آنکھیں کافی چمکدار دکھائی دے رہیں تھیں۔

جگنو خالہ خود اس حد تک بدل گئیں تھیں کہ جب میں نے انہیں پہلے دیکھا تو بمشکل پہچان پائی تھی۔ لیکن میں ان آنکھوں کو ضرور جانتی تھی؛ میں انہیں کہیں بھی پہچان لوں گی جو بالکل میری والدہ کی آنکھوں جیسی تھیں۔ میں ان سے ملنے کے لیے ان کے پاس گئی اور انہوں مجھ سے حال چال پوچھا۔

وہ بمشکل بات کر پا رہیں تھیں؛ بولتے وقت ان کا منہ ٹیڑھا ہو رہا تھا جس کا مطلب یا تو انہیں لقوہ ہوا تھا یا پھر ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

پڑھیے: گھریلو تشدد: پاکستانی 'کلچر' - حقیقت کیا ہے؟

ان کا چہرہ، ان کی ٹانگیں، ان کے پیر، ان کے ہاتھ، سب سوجا ہوا تھا۔ سوجن کی وجہ سے ان کی آنکھیں بھی ٹھیک سے نہیں کھل رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی پفر فش (پھولی ہوئی مچھلی) اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔ وہ نو ماہ کی حاملہ نظر آ رہیں تھیں مگر میں جانتی ہوں کہ وہ حاملہ نہیں ہو سکتیں تھیں کیونکہ بہت سالوں پہلے ان کا ٹیوبل لیگیشن ہوا تھا۔ ڈاکٹر کو جگنو خالہ کی زندگی بچانے کی خاطر ایسا کرنا پڑا تھا۔

میں نے انہیں بٹھانے میں مدد کی اور ان کا ہاتھ تھامے خود ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ میرے ذہن میں ایک شدید جذباتی عورت کی تصویر نمودار ہوئی جس میں ایک عورت کو اس کی بہن نے تھاما ہوا ہے اور وہ مدد کے لیے چیخ رہی تھی، 25 سال قبل کے اس تصور نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا۔

جنازے کی رسومات مقررہ منصوبے کے تحت جاری تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ خاندان کا ہر فرد جگنو خالہ کے پاس آتا اور ان سے پوچھتا کہ وہ کیسی ہیں جبکہ وہ صرف سر ہلا کر جواب دیتیں اور اکڑے ہونٹوں کے ذریعے مسکرانے کی کوشش کرتیں۔

میں نے وہاں موجود افراد کی ان پر خفیہ نظروں، سرگوشیوں اور ان کے سروں کو ہلتے ہوئے دیکھا، جنازے میں موجود افراد مسلسل جگنو خالہ کی باتیں کر رہے تھے۔ وہ لوگ بار بار میری والدہ سے جگنو خالہ کی صحت کا پوچھتے اور وہ اپنا سر ہلاتے ہوئے صرف یہ کہتیں کہ ''وہ ٹھیک ہے''، اور اس پر زیادہ بات کرنے سے گریز کرتیں۔

جگنو خالہ کا شوہر کمرے میں داخل ہوا، وہاں موجود تمام افراد سے بلند آواز میں مسکراتے ہوئے خوش مزاجی سے حال چال پوچھا، اور اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں کہنے لگا کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھا کرے، جس پر خالہ نے سر ہلا کر ان کی بات سے اتفاق کیا۔ میرے اندر شدید غصہ بھر گیا تھا۔ میرے دماغ میں انہیں سزا دینے کے تصورات ابھرنے لگے۔

میرے ماموں پیچھے سے آئے اور ان سے گرمجوشی سے گلے ملے، پھر وہ دونوں زور زور سے باتیں کرتے ہوئے کمرے سے چلے گئے، جیسے کہ کسی خاندانی تقریب میں ملتے ہیں۔ جتنی دیر ہم لوگ اس گھر میں جمع تھے، جگنو خالہ ان پورے پانچ گھنٹوں تک اپنی اسی جگہ پر بیٹھیں رہیں۔

جب نانا کو وہاں سے لے جایا جا رہا تھا تو اس وقت ایک لمحے کے لیے ان کی آنکھوں میں آنسو نظر آئے، مگر جلد ہی انہوں نے اپنے آنسو پونچھ دیے۔

ہر جانب لوگ رو رہے تھے یا ایک دوسرے کو سہارا دے رہے تھے، نانا کے درجات کی دعا کر رہے تھے۔ میرے برابر میں بیٹھی جگنو خالہ مکمل طور پر ساکن بیٹھیں تھیں؛ بالکل بے حرکت۔

تشدد کرنے والے کے ساتھ رہنا

کچھ سال گذرنے کے بعد میں آخرکار سمجھ پائی کہ وہ تمام علامات شدید ڈپریشن کے تھے۔ انتہائی سست روی سے اپنا رد عمل اور جواب دینا، غیر واضح انداز میں بولنا، یہ تمام باتیں اسی حقیقت کا ثبوت ہیں۔

یہی حقیقت 25 سال پہلے بھی دکھائی دے رہی تھی لیکن گھر کے کسی فرد نے مدد نہ کی۔ ان کی طرف ہمدردانہ نظر ڈالنے کے سوائے کسی نے بھی کچھ نہیں کیا، اور پھر آگے بڑھ کر دوسروں سے حال چال پوچھنے لگے۔

گذرے دنوں کو یاد کرتی ہوں تو اب ساری بات سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ دبی دبی گفتگو، میری والدہ کی جگنو خالہ کے شوہر سے لاچار نفرت؛ ان کی جذباتی کیفیتیں۔

اُس ہولناک حادثے کے ایک ہفتے بعد ہی جگنو خالہ کو ان کے پُرتشدد شوہر کے گھر مجبوراً واپس جانا پڑا تھا، کیونکہ ان کے شوہر نے ان کے بیٹے کو اسکول سے اغوا کرلیا تھا اور انہیں دھمکی دی کہ اگر خالہ ان کے پاس نہ لوٹیں تو وہ ان کے بیٹے کو نقصان پہنچائیں گے۔ پاکستان میں گھریلو تشدد کے قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔

کبھی کبھار بڑے بچوں کے سامنے بہت کچھ بولتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید بچے ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پائیں گے؛ یا وہ یہ امید رکھتے ہیں کہ بچے ان کے الفاظ کی تاریکی بھول جائیں گے۔

ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

ایک دن ابو نے والدہ کی غیر موجودگی میں آخر کار ساری بات واضح کر دی اور جگنو خالہ کی دردناک کہانی بتائی۔ انہیں ان کے والد اور بھائی تقریباً رات کے 2 بجے ان کے شوہر کے گھر لے کر گئے تھے۔

ان کے شوہر نے اپنی بے عزتی پر معافی مانگنے تک دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا تھا۔

وہ اس محلے میں گھپ اندھیرے میں تین گھنٹوں تک باہر کھڑے رہے۔ ان کے شوہر نے صبح کے 5 بجے صرف اس وقت دروازہ کھولا جب فجر کی اذان شروع ہوئی اور پورا محلہ جاگنا شروع ہوگیا تھا۔

سب خاموش رہے۔

ایک پراعتماد اور پرجوش لڑکی ایک عورت کا خول بن چکی تھی اور دو لفظ بھی ٹھیک سے بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ جگنو خالہ کے اپنے پیارے اپنے خاندان پر رسوائی کے داغ سے بچنے کی خاطر انہیں ہر روز دردناک موت مرنے کے لیے ان کے شوہر کے پاس چھوڑ آئے۔

جہاں تک ان کے قانونی طور پر شادی شدہ شوہر کی بات ہے، تو وہ آج بھی جگنو خالہ اور اپنے تین بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

— لکھاری کا نام شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

مہر احمد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔