پاکستان

پشاور کا 'نان سینس' لوگوں کی توجہ کا مرکز

ایک خاتون کے 'ڈھابے' کی طرز پر کھولے گئے اوپن ایئر کیفے 'نان سینس' (Naan Sense) نے سب کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔

پشاور: اگرچہ یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے، لیکن پشاور جیسے شہر میں ایک خاتون کا 'ڈھابے' کی طرز پر کھولا گیا اوپن ایئر کیفے 'نان سینس' (Naan Sense) واقعی سب کی گفتگو کا مرکز ہے۔

'نان سینس' کے نام سے یہ چھوٹا سے کیفے پشاور کے یونیورسٹی ٹاؤن میں شاپنگ مالز اور دیگر ہوٹلوں کے درمیان کھولا گیا ہے، جو اپنے رنگین ٹرک آرٹ سے مزین بیرونی تزئین و آرائش کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس وجہ سے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہ اس علاقے کا واحد کیفے ہے جہاں نوجوان اور فیملیز رات دیر گئے تک کھلی فضا میں کھانوں اور گفتگو سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

اس ڈھابہ اسٹائل کیفے کی مالک ضلع صوابی کے گاؤں پنج پیر سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون لیلیٰ ہیں، جن کا کہنا تھا، 'میں اپنے خاندان، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کو اس کے افتتاح کے موقع پر یہاں لائی تھی'۔


          میرے بھائی کا کہنا تھا کہ یہ (کیفے) نہیں چلے گا، لیکن میں نے انھیں غلط ثابت کردیا ہے، خواتین اور فیملیز یہاں آرہی ہیں
                                                            —لیلیٰ

'نان سینس' میں آنے والے نہ صرف اس کی بیرونی تزئین و آرائش، کرسیوں اور ٹیبلوں سے محظوظ ہوتے ہیں، جنھیں نہایت خوبصورتی سے ٹرک آرٹ سے سجایا گیا ہے بلکہ یہاں کی 'کڑک چائے' اور مختلف طرح کے نان بھی ان کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔کیفے میں عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کا گانا 'قمیض تیری کالی' اور دیگر پشتو دھنیں اُس وقت یہاں آنے والوں کو بور نہیں ہونے دیتیں، جب وہ اپنی چائے اور نان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

لیلیٰ، جو بذات خود کیفے کا کچن اور دیگر معاملات دیکھتی ہیں، نے بتایا، 'میرے بھائی کا کہنا تھا کہ یہ (کیفے) نہیں چلے گا، لیکن میں نے انھیں غلط ثابت کردیا ہے، خواتین اور فیملیز یہاں آرہی ہیں'۔

لیلیٰ نے بتایا، 'مجھے کوکنگ کا جنون ہے، لہذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک کیفے کھولا جائے اور لوگوں کو اپنی ریسیپیز انجوائے کرنے کا موقع دیا جائے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'نان سینس' میں پیش کیا جانے والا کھانا مغربی اور مشرقی کھانوں کا امتزاج ہوتا ہے۔

لیلیٰ نان میں بھرنے والی فلنگ خود بناتی ہیں اور اپنی ریسیپیز میں وقت کے ساتھ ساتھ تنوع پیدا کرتی رہتی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نان صرف کھانے میں ہی مزیدار نہیں ہیں بلکہ ان کے نام جیسا کہ ریکٹ (پنیر اور دھنیا)، ڈمپر (نوٹیلا) اور اسی طرح کے دیگر ناموں اور فلیور والے نانوں نے بھی بچوں، بڑوں اور نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔

'نان سینس' میں باقاعدگی سے آنے والی ثناء کا کہنا تھا کہ 'اس جگہ کی سب سے خاص بات یہاں کے رنگین کپ اور پلیٹیں ہیں، کسی کو بھی اس بات کی زیادہ پروا نہیں کرنی پڑتی کہ یہ صاف ہیں یا نہیں۔' بقول ثناء وہ کسی ریسٹورنٹ میں باہر کھانا کھاتے وقت صفائی کو ضرور مدنظر رکھتی ہیں۔


          کیفے میں عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کا گانا 'قمیض تیری کالی' اور دیگر پشتو دھنیں اُس وقت یہاں آنے والوں کو بور نہیں ہونے دیتیں، جب وہ اپنی چائے اور نان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
                                                           

لیلیٰ کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے نرخ زیادہ ہونے کی شکایت کی، لیکن ڈسپوزل برتنوں میں کھانا فراہم کرنے سے انھیں بالکل صاف ستھرا کھانا کھانے کو ملتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ، 'میری سب سے پہلی ترجیح کچن کو صاف ستھرا رکھنا اور صفائی کے معیار پر عمل پیرا ہونا ہے'۔

لیلیٰ کے خیال میں خواتین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان کی طرح اپنے شوق کو پورا کریں اور معاشی طور پر خودمختار بنیں۔ وہ نوجوانوں کو باہر نکل کر کھلی فضا میں بیٹھنے اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا چائے اور کھانے کا ڈھابہ کھولنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے طلبہ یہاں کے دوستانہ ماحول کی بناء پر باقاعدگی سے اس کیفے کا رخ کرتے ہیں، اگرچہ اس کے آغاز کو ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا ہے، لیکن لیلیٰ کے خیال میں یہ ان کی کامیابی ہے کہ مردوں کا معاشرہ ہونے کے باوجود خواتین یہاں اچھی خاصی تعداد میں آتی ہیں۔

لیلیٰ رواں برس گرمی کے سیزن میں اپنے کیفے میں گاؤں کے روایتی کھانے بھی متعارف کروانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں جو شہر کے دیگر ریسٹورنٹس میں دستیاب نہیں ہے۔

یہ خبر 23 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔