وزیراعظم نواز شریف قوم سے خطاب کررہے ہیں—ڈان نیوز۔
1999 میں اپنی حکومت کا تختہ الٹائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر کس قانون کے تحت ملک سے باہر بھیجا گیا اور آج الزام لگانے والوں نے آئین کی کون سی شق کے تحت فوجی آمر کے ہاتھ پر بیعت کی۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن ابھی قائم ہی نہیں ہوا مگر کچھ لوگوں نے فیصلہ بھی صادر کردیا۔ 'جن کے خلاف غیرملکی عدالتوں نے فیصلے صادر کئے وہ ہمیں اخلاقیات کا سبق پڑھا رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ جہازوں پر سفر کرنے والوں کا حساب کون دے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں وزیر اعظم کا یہ تیسرا جبکہ پاناما لیکس پر دوسرا خطاب تھا۔
پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے بعد رواں ماہ 5 اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن 3 ہفتوں میں کمیشن کا قیام عمل میں نہیں آسکا۔
حکومت نے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا وزیراعظم کے قوم سے خطاب میں اعلان کے ساتھ ہی وزارت قانون نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط ارسال کردیا ہے جس میں چیف جسٹس سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔
انکوائری کمیشن، پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت قائم کیا جائےگا۔
کمیشن مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس کے تحت کام کرے گا:
کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیرملکیوں اور اداروں سے پانامایا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔
کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقاتکا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہلخانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائیگئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔
انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرےگا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کےمطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلبکرنےکا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔
انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجازافسر کو کسیبھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دےسکے گا۔
انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقیاور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔
تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔
کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔
پاناما لیکس پر خطاب سے قبل لاہور کے اقبال پارک میں 28 مارچ کو ہونے والے خود کش حملے میں 72 افراد کی ہلاکت کے بعد بھی وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا تھا۔
آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟ - کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ - کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔ پاناما لیکس کے بعد قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس سے قبل پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی نے بھی تحریک انصاف کے مطالبے کی حمایت کی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے ذریعے وزیراعظم کو تجویز دی کہ وہ کمیشن کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھیں۔
پاناما لیکس
دو ہفتے قبل آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔
تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
مزید کے لیے کلک کریں ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے اس لیے ضروری نہیں کہ افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق، وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔
اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ عثمان سیف اللہ پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔
سابق جج ملک قیوم کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔
لیکس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔