پاکستان

الزام ثابت ہوا تو گھر چلاجاؤں گا: نوازشریف

وزیراعظم کا پاناما لیکس کی تحقیقات کے سلسلے میں کمیشن تشکیل دینے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھنے کا اعلان
|

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقات میں اگر ان پر الزامات ثابت ہوگئے تو وہ خاموشی سے گھر چلے جائیں گے۔

سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کررہے ہیں۔ 'میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چیف جسٹس کو ایک خط لکھ کر اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کروں گا'۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ اس کمیشن کی تمام سفارشات کو قبول کریں گے۔


          اگر مجھ پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں کیا قوم سے معافی مانگیں گے؟
                                                            — وزیراعظم

تاہم اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'اگر مجھ پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کررہے ہیں، قوم سے معافی مانگیں گے؟'

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان پر اسی طرح کے الزامات لگے اور ان کی تحقیقات کی گئی مگر ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ ہوسکی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ جمہوری ممالک کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کررہے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف قوم سے خطاب کررہے ہیں—ڈان نیوز۔

1999 میں اپنی حکومت کا تختہ الٹائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر کس قانون کے تحت ملک سے باہر بھیجا گیا اور آج الزام لگانے والوں نے آئین کی کون سی شق کے تحت فوجی آمر کے ہاتھ پر بیعت کی۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن ابھی قائم ہی نہیں ہوا مگر کچھ لوگوں نے فیصلہ بھی صادر کردیا۔ 'جن کے خلاف غیرملکی عدالتوں نے فیصلے صادر کئے وہ ہمیں اخلاقیات کا سبق پڑھا رہے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ جہازوں پر سفر کرنے والوں کا حساب کون دے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں وزیر اعظم کا یہ تیسرا جبکہ پاناما لیکس پر دوسرا خطاب تھا۔

پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے بعد رواں ماہ 5 اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن 3 ہفتوں میں کمیشن کا قیام عمل میں نہیں آسکا۔

حکومت نے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا

وزیراعظم کے قوم سے خطاب میں اعلان کے ساتھ ہی وزارت قانون نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط ارسال کردیا ہے جس میں چیف جسٹس سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔

انکوائری کمیشن، پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت قائم کیا جائےگا۔

کمیشن مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس کے تحت کام کرے گا:

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس پر وزیراعظم کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان

پاناما لیکس پر خطاب سے قبل لاہور کے اقبال پارک میں 28 مارچ کو ہونے والے خود کش حملے میں 72 افراد کی ہلاکت کے بعد بھی وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا تھا۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟

- کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

- کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

پاناما لیکس کے بعد قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس سے قبل پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی نے بھی تحریک انصاف کے مطالبے کی حمایت کی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے ذریعے وزیراعظم کو تجویز دی کہ وہ کمیشن کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھیں۔

پاناما لیکس

دو ہفتے قبل آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس اور حسن نواز کا 1999 کا انٹرویو

برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے اس لیے ضروری نہیں کہ افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

دستاویزات کے مطابق، وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ عثمان سیف اللہ پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔

لیکس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔