میلہ چراغاں: لاہور کی تاریکیوں میں ایک روشنی

دھماکے کے ایک دن بعد جب میں میلے میں داخل ہوا تو وہاں موجود لوگوں کے ہجوم میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

وہ میلہ چراغاں کا آخری دن تھا جب میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔

لاہور پارک میں ہونے والے قتل و غارت کے بمشکل ایک دن بعد ہی میرا وہاں جانا ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں دھماکے کی تصاویر اور فٹیجز کو اپنے دماغ سے نکالنا چاہتا تھا۔

چراغاں میلے کے موقعے پر روشن کیے گئے دیے۔

یہ میلہ ہر سال کی طرح اس سال بھی 16 صدی میں شہر لاہور میں بسنے والے مادھو لال حسین کے نام سے مقبول عظیم صوفی بزرگ شاھ حسین کے 428 ویں سالانہ عرس کے موقعے پر منعقد کیا گیا تھا۔

پولیس نے مزار کی اطرف سڑکیں سیل کر دی تھیں۔ مزار میں داخل ہونے کی صرف ایک ہی جگہ مقرر تھی جہاں دروازے اور میٹل ڈٹیکٹرز نصب تھے۔ سکیورٹی کے انتظامات دیکھ کر عجیب سی میری ڈھارس بندھی۔ سکیورٹی کے دوران میری تین بار اچھی طرح چیکنگ کی گئی تھی۔

جب میں میلے میں داخل ہوا تو وہاں موجود لوگوں کے ہجوم میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ بچے لاپرواہی سے ادھر ادھر گھوم رہے تھے اور پورے ملک سے لوگ مزار پر اپنی خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔

لاہور کے شہریوں میں خوف کی کوئی بھی علامت عیاں نہیں تھی۔
عرس کے موقعے پر ہر عمر کے افراد خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔

میلے کے موقعے پر مزار پربہت بڑی آگ جلائی جاتی ہے جس میں لوگ اس امید سے موم بتیاں، تیل پھینکتے ہیں اور دیے جلائے جاتے ہیں کہ ان کی تمام خواہشات پوری ہوں۔ پورے عرس کے دوران آگ مسلسل روشن رہتی ہے۔

عرس کے دوران آگ مسلسل روشن رہتی ہے۔
عقیدتمند سبیل سے پانی پی رہے ہیں۔

بچوں کی سیرو تفریح کے لیے مختلف جھولے بھی موجود تھے۔

بچے جھولوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
مزار کے باہر کھانے پینے کی اشیاء کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔

یہ سب دیکھ کر مجھے گوتم بدھ کا ایک قول یاد آیا۔

''آپ کا بدترین دشمن آپ کو اتنی تکلیف نہیں پہنچا سکتا جتنا آپ کو اپنی غیر محتاط سوچیں پہنچا سکتی ہیں۔''

میں تھوڑی دیر وہاں ٹھہر کے لوگوں کے صوفیانہ رویوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔

مزار پر موجود ایک ملنگ

میں نے راستے میں کچھ لوگوں کو روک کر پوچھا کہ کل ہونے والے واقعے کے باوجود وہ یہاں کیوں آئے تھے؟ میں نے انہیں اس بات کی نشاندہی کروائی کہ چونکہ یہ ایک پُرہجوم جگہ ہے اس لیے دہشتگرد حملے کا ہدف بھی بن سکتی ہے۔

ان کے رد عمل

''ہمیں ان بزدلوں سے خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ ہمارا ایمان مضبوط ہے۔ ہم یہاں اپنے درویش کے لیے آئے ہیں۔ ہماری خواہشات یہاں پوری ہوتی ہیں جس وجہ سے ہم ان کے لیے یہاں مومبتیاں، دیے اور اگربتیاں جلاتے ہیں اور سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں۔''

ایک مرید جو ننگے پاؤں مزار پر آیا ہوا تھا ان کا کہنا تھا کہ انہیں شاھ حسین کی تعلیمات سے روحانی تعلق محسوس ہوتا ہے۔ ''میں کئی سالوں سے عرس کی تقریبات میں شریک ہو رہا ہوں۔ جب میں مزار پر آتا ہوں تو خود کو پاکیزہ محسوس کرتا ہوں۔''

ایک بزرگ عورت دیے سے تیل نکال رہیں ہیں اس تیل کو شفا کا باعث سمجھا جاتا ہے۔

میں نے ایک بزرگ خاتون کو دیا جلاتے دیکھا میں ان کے قریب گیا اور یہی سوال پوچھا۔ وہ میرے کیمرے سے تھوڑا خوفزدہ ہوئیں لیکن پھر بھی مسکراتے ہوئے بولیں:

جا کو رکھے سائیاں مار سکے نا کوئی''

(جسے خدا رکھے اسے کون چکھے)

ان کی تصویر کھینچنے کے بعد میں وہاں سے چلا گیا مگر ان کے لفظوں نے میرے اندر خوف کی جگہ سکون بھر دیا تھا۔ وہی خوف جو دھماکے کے بعد مجھے ایک دن پہلے محسوس ہو رہا تھا۔

ایک عورت صوفی بزرگ مادھو لال حسین کی درگاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھیں ہیں۔