کابل دھماکا : ہلاکتیں 64 ہوگئیں
کابل: افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ (این ڈی ایس) پر گزشتہ روز ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 64 ہوگئی ہے۔
افغان خبر رساں ادارے خاما پریس نے وزارت داخلہ کے ترجمان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ روز کابل میں افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس پر ہونے والے خود کش دھماکے اور حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 64 ہوگئی ہے۔
ایک اور افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز نے وزارت داخلہ کے حوالے سے ہی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ واقعے میں 347 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ مذکورہ دھماکے کی ذمہ داری افغان طالبان نے قبول کرلی ہے جس کے بعد ان کے مسلح جنگجوؤں اور افغان فورسز کے درمیان کئی گھنٹوں تک لڑائی جاری رہی۔
افغان فورسز نے مذکورہ حملہ آوروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے تاہم ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: افغان خفیہ ادارے کے دفتر پر حملہ، 30 ہلاک
واضح رہے کہ اس سے قبل آنے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خفیہ ادارے کے مرکزی دفتر پر خود کش حملے میں 30 افراد ہلاک اور 327 زخمی ہوئے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کار خود کش دھماکے میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ (این ڈی ایس) کے دفتر کو نشانہ بنانے کوشش کی گئی۔
دھماکے کے کچھ دیر بعد کابل کے پولیس چیف عبد الرحمن الرحیمی کا کہنا تھا کہ حملے میں 30 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
افغان وزارت صحت کے ترجمان اسماعیل کسوائی کا کہنا تھا کہ حملے میں 327 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
افغان وزرات داخلہ کے ترجمان صدیق صادق نے بتایا تھا کہ حملے کے بعد مسلح افراد سے سیکیورٹی اداروں کی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
ترجمان کے مطابق 2 سے 3 مسلح افراد خفیہ ایجنسی کی عمارت میں داخل ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کا افغانستان میں نئے حملوں کا اعلان
مقامی میڈیا کے مطابق دھماکے کے مقام کے قریب افغان وزارت دفاع، فوجی کمپاونڈز اور امریکی سفارتخانہ واقع ہیں۔
امریکی سفارتخانے کے حکام کے مطابق سفارتی عملے کو دھماکے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے حملے کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔
حملے کی ذمہ داری
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق حملے میں خفیہ ادارے کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کی مذمت
پاکستان نے کابل میں ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دہشت گردی پر مذمتی بیان جاری کیا گیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق دہشت گردی کے واقعے کا نشانہ بننے ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں پاکستان افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے،غم کی اس گھڑی میں پاکستان افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے افغان طالبان نے موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف بڑے آپریشن کا اعلان کیا تھا، اس آپریشن کو طالبان کی جانب سے 'عمری آپریشن' کا نام دیا گیا۔
خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق افغان آرمی چیف جنرل قدم شاہ شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے موسم بہار کی آمد پر نئے آپریشن کا اعلان صرف پروپیگنڈا ہے، ان کو ملک کے کسی بھی حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
طالبان کی جانب سے نئے آپریشن کے اعلان کے بعد گزشتہ ہفتے صوبے تخار میں سڑک کنارے نصب بم حملے میں اعلیٰ سیکیورٹی افسر سمیت 8 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: نئے امیر کی قیادت میں افغان طالبان کا پہلا بڑا حملہ
اس دھماکے سے دو روز پہلے جلال آباد کے قریب افغان فوج میں بھرتی ہونے والے افراد کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
دو ہفتے قبل امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان آئے تھے، ان کے دارالحکومت کابل کے دورے کے فوری بعد شہر کے وسطی علاقے میں متعدد دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
راوں ماہ کے شروع میں مشرقی صوبے پروان میں ایک موٹر سائیکل سوار خودکش بمبار نے خود کو ایک اسکول اور کلینک کے قریب دھماکے سے اڑالیا تھا، جس کے نتیجے میں کم ازکم 6 شہری ہلاک اور 22 زخمی ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ ایک سال سے افغان طالبان کی قیادت ملا عمر کے نائب ملا اختر منصور کر رہے ہیں۔
ملا اختر منصور کے امیر بننے کے بعد طالبان میں اختلافات پھوٹ پڑے اور وہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے، تاہم گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ یہ اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور مخالف دھڑے کے رہنماؤں کو بھی طالبان کی شوریٰ شامل کر لیا گیا ہے۔
طالبان کے کئی چھوٹے گروہ شام اور عراق کے بعد افغانستان میں قدم جمانے والی دہشت گرد تنظیم داعش میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ گروپ 2001 میں امریکا کی مداخلت کے باعث افغان حکومت چھن جانے کے بعد افغان حکومت کے خلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ طالبان نے دسمبر 2014 میں افغانستان سے امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد اپنی کارروائیوں کو تیز کردیا، جس میں اب تک ہزاروں افغان فوجی اور پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔
دوسرے جانب طالبان نے اپنی شرائط کی منظوری تک افغان امن مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے، جس میں ملک میں موجود 13000 غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔