پاکستان کرکٹ کا آخر مسئلہ ہے کیا؟
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم کیا ہاری ایک بار پھر پی سی بی میں تبدیلیاں شروع ہو گئیں، گویا تبدیلیاں ایسی کی جارہی ہے جیسے سب جانتے ہوں کہ ٹیم کیوں ہاری اور اب کون آ کر جادو کا چھڑی گھما کر ٹیم کو یکایک ورلڈ چیمپیئن بنادے گا۔
ٹیم ہاری تو پہلے کوچ اور کپتان نے موہالی میں ذمے داری قبول کرنے کے بجائے پاکستان کرکٹ کی روایت دہرائی اور جب تک عوام اور میڈیا نے مجبور نہ کیا استعفیٰ نہ دیا اور جب دیا تو کوچ صاحب حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود پی سی بی کی جانب سے 'نو لفٹ' کا بورڈ دیکھ پی سی بی ہیڈآفس کے گیٹ کے باہر نم آنکھوں سے دس رخصت ہوئے جبکہ کپتان صاحب تو سوشل میڈیا کے انتے ماہر ٹھہرے کے پی سی بی کمیٹی کے سامنے تو پیش نہ ہوئے لیکن معافی نامے کی ویڈیو بنا کر ٹوئیٹ ماری اور پھر ٹوئٹر پر ہی استعفی یوں پیش کرڈالا گویا کہ ٹوئٹر پر ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کھیلی گئی یا پھر پی سی بی نے کپتان کی تقرری بھی فیس بک پر کی ہو ۔
جو ہوا سو ہوا۔۔ لیکن بورڈ میں کبھی چیئرمین کی تبدیلی کی بات تو کبھی چڑیا کا ذکر۔ خیر بھلا ہو پانامہ لیکس والوں کا کہ وزیر اعظم اور حکومت کو اپنی ایسی فکر لگی کہ پی سی بی قصہ پارینہ بن گیا۔
لیکن پاکستان کرکٹ کا آخر مسئلہ ہے کیا ؟
آٹھ سال اسپورٹس جرنلزم میں گزارنے تین آئی سی سی ورلڈ ایونٹس اور کئی غیر ملکی سیریز کی کوریج کے بھلے تجربے کے بعد جو بات ذہن میں آئی وہ یہ کہ پاکستان کرکٹ کی بہتری چیئرمین کی تبدیلی میں ہے، نہ کپتان نہ ہی کوچ کو ہٹا دینے میں ہے بلکہ ملکی کرکٹ کو دوبارہ بلندیوں تک پہنچانے کیلئے پورے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا۔
سیدھی بات کہوں تو جس سطح پر پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی جارہی ہے اس کے بعد توقع کیوں رکھی جارہی ہے کہ کرکٹ کے اس تیز دور میں ہم دنیا کی صف اویل کی ٹیموں کا مقابلہ کر پائیں گے؟۔
اب چیئرمین پی سی بی نے تو ڈومیسٹک کرکٹ کے ریجنل اور ڈپارٹمنٹ کوچ اور سلیکٹرز کو یہ نہیں سکھانا کہ نوجوان کھلاڑیوں کو کیسی تربیت دیں کہ کوئی ویرات کوہلی یا اے بی ڈی ویلیئرز مل جائے۔ چلیں یہ تو موجودہ دور کے سپر اسٹار ٹھہرے کوئی روایتی انداز میں سکون سے کھیلنے والا محمد یوسف یا مہیلا جے وردھنے ہی مل جائے.
بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کرکٹ اب بدل چکی اور پاکستان بہت پیچھے رہ گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں پاکستان کی نئی پود اب بھی اس طرز کی کرکٹ کھیل رہی ہے جو عامر سہیل، انضمام الحق اور معین خا ن نے نوے کی دہائی میں کھیلی۔ یہ سب کھلاڑی اس دور میں حریف ٹیموں کے مقابلے میں بہتر تھے، ٹیم فتح کی راہ پر گامزن تھی لیکن کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم ٹیلنٹ ٹیلنٹ کا نعرہ لگانے کے بجائے یہ تسلیم کر لیں کہ جدید ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے نہ پاکستان میں اچھے کرکٹرز موجود ہیں اور نہ ہی ایسے کوچز ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو وہ تربیت دیں جس سطح پر ہندوستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ یا آسٹریلین بیٹسمین کھیل رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی پہلی گیند پر مارٹن گپٹل ہندوستان کے ہزاروں تماشائیوں کے سامنے روی چندرہ ایشون کو کرارا چھکا رسید کرے لیکن ہمارا اوپنر پہلے اوورز میں بلے گو گیند سے چھونے کے لیے ہی جتن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ اب بھی جاوید میانداد کے اس پرانے فارمولے کے گرد گھوم رہی ہے کہ پہلے تیس اووز میں وکٹیں بچاؤ اور پھر آخری دس اوورز میں مار دھاڑ کرکے 250 سے پونے تین سو بنا لو۔ اب ڈھائی سو رنز تیس اوورز میں اور پچاس اوورز میں ساڑھے تین سو رنز بنانے کا دور آ گیا ہے لیکن آخر ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟.
وجہ سیدھی یعنی گھر کی تربیت۔۔ جب ڈومیسٹک کرکٹ میں کوچز کھلاڑیوں کو ماڈرن کرکٹ کے مطابق تیار نہیں کریں تو وہ خا ک بین لاقوامی کرکٹ میں قدم جما پائیں گے۔
پاکستا ن کرکٹ کو دنیا کے مقابلے پر لانا ہے تو ڈومیسٹک کرکٹ کو ہدف بناکر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو اس ڈگر پر لانا ہوگا جہاں برینڈن مک کولم نے دو برس قبل نیوزی لینڈ کو لا کھڑا کیا اور پھر شاندار انداز میں کرکٹ کو الوداع کہا۔ لیکن ان کے جانے کے باوجود کیوی ٹیم میں کوئی خلا پیدا نہیں ہوا بلکہ اس وقت ان کے پاس ایک نہیں پانچ سے چھ مک کولم جیسے کھلاڑی آچکے ہیں جو وکٹ پر آتے ہی ایسا جارحانہ انداز اپناتے ہیں کہ دنیا کے بہترین باؤلر بھی پناہ مانگنے لگتے ہیں۔
پی سی بی کے کرتا دھرتاؤں کو پاکستان کرکٹ کا مائند سیٹ بدلنا ہوگا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں موجود کوچز کو بھی ذہن بدلنا ہوگا، کھلاڑیوں کو جارحانہ انداز میں کرکٹ کھیلنے کی ترغیب، تربیت اور مواقع فراہم کرنا ہوں گے، جب تک پاکستان کرکٹ گھر میں اپنا معیار بلند نہیں کرے گی تب تک باہر مار کھاتی رہی گی۔
دو دہائی قبل ہاکی میں پاکستان اسی لیے پیچھے رہ گیا کہ آسٹرو ٹرف کی تیزی کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر ملکی ٹرینرز سے کوچز اور کھلاڑیوں کو تربیت دلانے کے بجائے گھسی پٹی تربیت کرائی جاتی رہی اور اب نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور نیوزی لینڈ سے بھی چار سے پانچ گول کی مار پڑ رہی ہے اور پاکستان ہاکی فیڈریشن نے شکست کے خوف سے چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے ہی معذرت کرلی ۔
تحریر کو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں تبدیل کرتے ہوئے گزارش ہے کہ نہ تو چیئرمین کی تبدیلی سے فرق پڑیگا نہ کسی کے کوچنگ اور سلیکشن میں آنے سے پاکستان کرکٹ کو کوئی لائف لائن ملنے والی ہے۔ دنیا بھر میں کھیلی جانے والی جارحانہ کرکٹ اور فٹنس کے معیار پر پہنچنے کے لیے اگر اب بھی ڈومیسٹک کرکٹ یا پھر نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کھلاڑیوں کو مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار نہ کیا گیا تو پاکستان کرکٹ کا وہی حال ہو گا جو پاکستان ہاکی کا ہوا۔ پھر چاہے عمران خان یا ویون رچرڈز کو بھی لیکچر بدینے کیلئے کیوں نہ بلا لیں لیکن کوئی معجزہ نہیں ہونے والا کیونکہ اگر ایسا ہی ہونا ہوتا تو عمران خان سے ملاقات کے بعد پاکستان ٹیم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ہندوستان کے ہاتھوں شکست فاش کھانے کے بجائے گراؤنڈ میں جان مارتی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھیلتی دکھائی دیتی۔
ڈومیسٹک کرکٹ کے کوچز اور ٹرینرز کو فوری طور پر اعلیٰ معیار کے کوچنگ کورسز اور خود ٹریننگ لینی کی ضرورت ہے لیکن کہتے ہیں ناں کہ بخار کی دوا سر درر کی گولی ہرگز نہیں۔ تو بس سمجھ لیا جائے کہ جب تک کھلاڑیوں کو موجود ہ دور کے مطابق تربیت نہ دی گئی تو پھر پاکستان کرکٹ کا آگے اللہ ہی حافظ ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
عبدالغفار ڈان نیوز کے اسپورٹس رپورٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: SportsReporter_@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔