دنیا

9/11: امریکی سیاستدان سعودیہ پر مقدمے کے حامی

ریپبلکن اورڈیموکریٹک قانون ساز ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے متعلق کانگریسی رپورٹ کے 28صفحات سامنے لانےکامطالبہ کررہے ہیں.

واشنگٹن: امریکا کے 2 صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن اور برنی سینڈرز نے ایک بل کی حمایت کی ہے جس کے مطابق 9/11 متاثرین کے خاندان اُن حکومتوں کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتے ہیں جن کے شہری حملے میں ملوث تھے.

اگرچہ گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ کی عدالتی کمیٹی میں دہشت گردی کی کفالت کرنے والوں کے خلاف منظور ہونے والے بل میں سعودی عرب کا نام موجود نہیں، تاہم اکثر خاندانوں نے ریاض حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ ابھی سے کرلیا ہے۔

امریکی نجی چینل اے بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ 'ظاہر ہے کہ ہمیں اُن تمام لوگوں کو، جو دہشت گردی کا حصہ ہیں یا اس کی حمایت کرتے ہیں، سبق سکھاناہے اور ہمیں اُن تمام نتائج کو مدِنظر رکھنا ہوگا جو امریکی شہریوں یا فوج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں'.

انہوں نے اپنے ایک اور حتمی بیان میں کہا کہ دہشت گردی کے متاثرین اور ان کے خاندان کو ذمہ داروں کا احتساب کرنا ہوگا اور صدر کی حیثیت سے وہ کانگریس کے ساتھ اس معاملے پر کام کریں گی.

برنی سینڈرز نے اس معاملے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'میں سینیٹر چک شمرز کی جانب سے اس قانون سازی کی حمایت کرتا ہوں، جو امریکیوں بالخصوص 9/11 کے متاثرین کو اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ امریکی عدالتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرسکیں کہ امریکا میں بین الاقوامی ادارے دہشت گردی کے حملوں کے مجرم ہیں اور کیا وہ اپنے جانی و مالی نقصان کا معاوضہ حاصل کرسکتے ہیں.'

واضح رہے کہ اس بل کی وجہ سے سعودی-امریکی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اورسعودی عرب نے بل کی منظوری پر امریکا کے ساتھ کی گئی 750 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری واپس لینے کی دھمکی دے دی ہے۔

یہ تنازع امریکی صدر براک اوباما کے دورہ سعودی عرب سے چند دن قبل سامنے آیا ہے، جو منگل کے روز ریاض روانہ ہو رہے ہیں.

سعودی عرب نے اوباما پر مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی بحالی کا الزام عائد کیا ہے، جب تہران نے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے طے کرکے اپنی معیشت کو مستحکم کیا.

28 صفحات

اوباما انتظامیہ نہ صرف اس بل کو منظور ہونے سے روک رہی ہے بلکہ وہ کانگرس کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملے کی اُن دستاویزات کو سامنے لانے سے بھی روک رہی ہے جس میں سعودی عرب پر الزام لگایا گیا ہے۔

دوسری جانب ریپبلکن اور ڈیموکریٹک قانون ساز، کانگریس کی 838 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے 28 صفحات، جن میں 9/11 کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، سامنے لانے کا زوروشور سے مطالبہ کر رہے ہیں.

امریکی میڈیا کے مطابق حکومت کے پاس حفاظت سے موجود ان 28 صفحات میں 9/11 کے ہائی جیکرز کے ساتھ سعودی عرب کے روابط کے ثبوت موجود ہیں۔

یہ دستاویزات حملے میں سعودی مداخلت کو بے نقاب کریں گے.

واضح رہے کہ 9/11 حملے کے ہزاروں متاثرین کے خاندان کئی سال سے حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ ان 28 صفحات کو سامنے لے آئیں اور سعودی عرب پر مقدمہ دائر کریں۔

ابتداء میں ہیلری کلنٹن اور برنی سینڈرزاس تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے اور جب بھی ان سے تبصرہ مانگا گیا تو ان کا جواب ہوتا تھا کہ وہ اس موضوع کے بارے میں اتنی معلومات نہیں رکھتے کہ کوئی واضح بیان دے سکیں۔

لیکن جب میڈیا رپورٹس اور سروے میں اس بات کہ نشاندہی ہوئی کہ امریکی شہری حملے میں ملوث تمام حکومتوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔

ہیلری کلنٹن نے اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ وہ اوباما انتظامیہ کی قانون کو روکنے کی کوششوں کی حمایت نہیں کریں گی۔

برنی سینڈرز نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا اور کہا کہ 'ان 28 صفحات کے مآخذ کو اور ہائی جیکرز کو موصول ہونے والی غیر ملکی امداد کے ممکنہ ذرائع کو بھی سامنے لایا جائے'.

فلوریڈا کے سابق سینیٹر باب گراہم نے امریکی حکومت پر زوردیا کہ وہ سعودی عرب سے بلیک میل نہ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو اس بات کی فکر تھی کہ اگر قانون منظور ہوگیا تو ان کے 'دہشت گردوں سے تعلقات' سامنے نہ آجائیں۔

تاہم امریکی انتظامیہ کا ماننا ہے کہ اگر سعودی حکومت اپنی دھمکی پر عمل کرتی ہے تو یہ عالمی معیشت کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ اوباما انتظامیہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک قانون سازوں کے ساتھ بات چیت کررہی ہے تاکہ یہ قانون منظور نہ کیا جاسکے، تاہم قانون سازوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ 19 میں سے 15 ہائی جیکروں کا تعلق سعودی عرب سے تھا اور اب تک سعودی شہریوں کو امریکا میں کسی جانچ پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا.

سابق سینیٹر گراہم کا کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں یہ زیادہ قابلِ اعتراض بات ہے کہ امریکی حکومت سعودی عرب کی حمایت کر رہی ہے اور قانون سازی کی منظوری میں روڑے اٹکا رہی ہے۔'

یہ خبر 19 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔