میں پہلی بار رام تھمن گاؤں تب گیا تھا جب میں اپنی پہلی کتاب پر کام کر رہا تھا۔
اوپر لکھے شعر میں وارث شاہ اسی میلے کا حوالہ دے رہے ہیں۔ وارث شاہ کی شاعری کو پنجاب کی ثقافتی اور تاریخی معلومات کے بغیر سمجھنا ویسا ہی ہوگا جیسے یونانی دیومالائی کہانیوں کو جانے بغیر اوڈیسز پڑھنا۔
مزید یہ کہ یہاں ڈھاڈ اور تمبا لفظ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ لوک شاعری کی روایت میں اسے جنسی عمل کا استعارہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ جب وارث شاہ تھمن میں جشن کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب وہ ہیر کی بارات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔
ان دو اشعار میں کئی مفاہیم موجود ہیں جو پنجابی لوک، تاریخ، مذہب اور جغرافیے کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ شعر سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس میں ثقافت کی روح نظر آتی ہے۔
میں نے لاہور کے ایک انگلش میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کی جہاں اردو کو نظر انداز کیا جاتا تھا اور پنجابی کا باقاعدہ مذاق اڑایا جاتا تھا۔ وارث شاہ کے اشعار میں چھپے مفاہیم میں سمجھ ہی نہیں پاتا تھا۔
اسکول میں ہمیں شیکسپیئر کی مشہور تحاریر میکبیتھ اور مرچنٹ آف وینس کا اصلی متن پڑھایا گیا تھا۔ جس طرح ہم پنجابی ثقافت کو جانے بغیر ہم وارث شاہ کو نہیں سمجھ سکتے، اسی طرح آپ شیکسپیئر کے دور کی ثقافت کو سمجھے بغیر ان کی شاعری کے حسن کی داد نہیں دے پائیں گے۔
میں نے شیکسپیئر کے جتنے بھی لیکچر اٹینڈ کیے، انہوں نے مجھے ادب سے قریب کرنے کے بجائے دور کر دیا۔
میرے لیے ادب ایسی چیز بن گئی تھی جسے مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکتا تھا — کیونکہ اس ادب کا تعلق دوسرے لوگوں سے تھا جو دنیا کے مختلف حصے میں رہتے تھے۔
انگریزی زبان میں مہارت نے بطور مصنف مجھے اور میرے ساتھیوں کو ملک کے اندر کئی معاشی مواقع فراہم کیے ہیں۔ پاکستان میں کسی مقامی زبان کے بجائے انگریزی زبان میں لکھنا کہیں زیادہ منافع بخش ہے۔
اس طرح آپ کو زیادہ پیسے ملتے ہیں، زیادہ تعداد میں پڑھنے والے، اور سب سے اہم بات یہ کہ اس طرح آپ کو عالمی سطح پر پاکستانی ادب کی نمائندگی کا اعزاز ملتا ہے۔
بلاشبہ اس میں کوئی برائی نہیں۔
پاکستانی انگریزی ادب پاکستانی ثقافت کے ایک پہلو کی نمائندگی ضرور کرتا ہے، مگر ایک محدود حصے کی۔
شہری متوسط طبقے سے جنم لینے والا یہ ادب مصنف کے ذاتی تجربات تک محدود ہوجاتا ہے۔ ان کے تجربات ظاہر ہے کہ دیگر پاکستانیوں کے تجربات سے کم اہم نہیں ہوتے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں عالمی کشش نہیں ہوتی۔
پاکستان میں جب بھی انگریزی تحریر میں عام لوگوں کے تجربات کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، وہ سیاستدانوں اور صحافیوں کی دقیانوسی باتوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
میں خود کو بھی اسی دائرے میں شامل کرتا ہوں۔ میں اس خطے کے لوک ادب اور تاریخ کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتا بھی ہوں تو زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے اس گہری ثقافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی سمجھ پاتا ہوں، اور اپنی تحریر میں اس سے بھی مختصراً شامل کر پاتا ہوں۔
میں چاہے جتنی بھی کوشش کرلوں، لیکن آگ کا دریا جیسا شاہکار نہیں لکھ سکوں گا، جس میں میرے مطابق قرۃ العین حیدر نے تمام ثقافتوں کو خوبصورت ترین انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب میں مختلف ادوار اور جغرافیوں کو واضح کرنے کے لیے انہوں نے کرداروں کو مقامی لہجہ دیتے ہوئے تحریر کیا ہے۔
مارک ٹوئین نے بھی اپنی کتاب ہکلبیری فِن میں بھی یہی طریقہ استعمال کیا ہے جب کہ گریٹ ایکسپیکٹیشنز میں چارلس ڈکنز نے بھی یہی کیا ہے۔
لوگوں اور ثقافت کی نمائندگی صرف اس برادری کی اپنی زبان میں واضح کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ اس برادری کی پیداوار ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک غیر مقامی زبان میں یہ نمائندگی کسی تماشے سے کم نہیں ہوگی۔
المیہ یہ ہے کہ بھلے ہی پاکستان میں یہ چیز بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے، مگر پھر بھی پاکستان میں قرۃ العین حیدر جیسی سطح کا انگریزی مصنف پیدا نہیں ہو سکتا۔
اس نقطے پر مجھے اقبال قیصر کی وہ بات یاد آگئی جو انہوں نے مجھ سے 17 ویں صدی کے مشہور صوفی شاعر سلطان باہو پر بات کرتے وقت کچھ سال قبل کہی تھی۔
''کیا تم جانتے ہو کہ سلطان باہو نے فارسی میں 100 سے زائد کتابیں لکھیں؟ لیکن آج انہیں صرف ایک پنجابی نظم، سہہ حرفی، کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ان کی فارسی کتابوں کے نام جانتے ہوں گے مگر پنجاب میں ہر کسی نے سہہ حرفی نظم ضرور سنی ہوگی۔"
گرو نانک، بابا فرید، شاہ حسین اور بلھے شاہ، ان تمام کی کہانیاں بھی ایک سی ہیں۔ یہ سب عربی اور فارسی پر بڑی مہارت رکھتے تھے جو ان دنوں اشرافیہ کی زبان تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے عوامی زبان یعنی پنجابی میں اظہارِ خیال کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے ان لوگوں کے تجربات، ان کی سرزمین، ان کی ثقافت اور ان کے مسائل پر بات کی، اور بدلے میں ان کے کلام کو لافانیت عطا ہوئی: یہ وہ عظیم کامیابی ہے جو ہر مصنف حاصل کرنے کی آرزو رکھتا ہے۔
یہ سوچ مجھے ڈرا دیتی ہے — بہت سے لوگ اس لیے مصنف بنتے ہیں کیونکہ وہ دنیا پر ایک انمٹ نشان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، تاکہ ان کا کام لازوال ہو جائے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگریزی میں لکھنے والے پاکستانی مصنفین کبھی ایسا مقام حاصل کر پائیں گے؟
انگریزی میں لکھنے والے ہم مصنفین اس وقت مقامی مصنفین سے شاید زیادہ ''کامیاب'' ہوں، لیکن جب ہم اس دنیا میں نہیں رہیں گے، اس وقت کیا ہمارے کام کو یہاں کوئی یاد رکھے گا؟
کیا واقعی ہماری تحریریں ہمارے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں؛ کیا ہم نے ان کے ساتھ انصاف کیا؟
انگلش میں پڑھیں۔