جنگشاہی: ایک اداس ریلوے اسٹیشن کی کہانی
وہ پیر کا دن تھا، 13 مئی 1861ء۔ گرم دنوں کی تپتی دوپہر میں وقت تھا مگر جھکڑوں اور گرم ہوا نے چہروں کو جھُلسانا شروع کر دیا تھا۔ ریت کے ذرے تھے جو ہوا کے جھونکے کے ساتھ آجاتے۔ جنگشاہی درگاہ کے آنگن میں بنی ہوئی پیلے پتھروں کی مسجد میں ایک دو مسافر لیٹے ہوئے تھے۔
ابھی دس ہی بجے ہوں گے کہ دور سے ریل گاڑی کے انجن کی سیٹی سُنائی دی تو باہر نکل آئے۔ دونوں نے ہاتھ کا چھجا بنا کر آنکھوں کے اوپر رکھا اور جنوب مغرب کی طرف دیکھنے لگے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کثیف کالے دھویں کے بادل زمین سے اُگتے جاتے ہیں۔
وہ کچھ دیر حیران اور پریشان رہے، پھر ناک پر اُنگلی پھیر کر توبہ کی، کان پکڑے اور مسجد کے اندر چلے گئے۔ لیکن جنگشاہی کے نئے تعمیر شدہ ریلوے اسٹیشن پر اور منظر تھا۔ برگد کے گھنے پیڑ کے نیچے اور عمارتوں کے آگے کچھ لوگ اور بچے کھڑے گاڑی کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
کچھ اونٹوں والے، جنہوں نے ٹھٹھہ جانا تھا، نے بھی اونٹوں کو زقوم کی گھنی جھاڑی کے قریب بٹھا دیا کہ گاڑی کو دیکھ کر بعد میں ٹھٹھہ روانہ ہوں گے۔ پھر گاڑھا دھواں اُڑاتا خوفناک قسم کا کالا انجن نمودار ہوا۔
جیسے جیسے وہ اسٹیشن کے قریب آتا گیا، ایسا لگا کہ بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ ڈر بھِی گئے، اس لیے کچھ دور جا کر برگد کے پیڑ اور عمارتوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ پھر دھیرے دھیرے سے گاڑی اسٹیشن پر رُکی، تو کچھ فرنگی اُترے۔ اسٹیشن کو دیکھا۔ ایک غرور تھا جو کیل کی طرح ان کے کاندھے میں گڑا تھا۔ مقامی لوگ یہ سب حیرت سے دیکھتے رہے۔
پھر پندرہ بیس منٹ کے بعد کالے انجن نے سیٹی بجائی، دھواں اُگلا، بھاپ چھوڑی اور گاڑی کوٹڑی کی طرف چل پڑی۔ اور پھر لوگ جیسے کونوں کھدروں سے نکل آئے اور جاتی گاڑی کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ گاڑی چلی گئی تو جنگشاہی کے ریلوے اسٹیشن پر پھر خاموشی چھا گئی۔