لاہور کا وائٹ ہاؤس
لاہور کی قلم بند سیاسی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہو کہ رقص و سرور کی محفلوں کی مرکز بنی عمارت کو کتب خانے میں بدل دیا گیا ہو۔
جس عمارت کو برطانوی انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کی فتح کے بعد پنجاب میں اپنی شان و شوکت اور حکومتی عظمت کی خاطر بنایا تقسیم ہند کے بعد اس عمارت کو مکتب خانے میں بدل کر قائد اعظم لائبریری بنا دیا جاتا ہے۔
مال روڈ کے ماتھے کا جھومر بنی اس عمارت نے رقص و سرور کی محفلوں کی میزبانی سے کتابوں کی میزبانی تک کا سفر کیا ہے۔ لاہور کا مال روڈ اور سڑک کے دونوں اطراف پر موجود ہر عمارت کی اپنی تاریخ ہے اور ان تمام عمارتوں میں قائد اعظم لائبریری کی عمارت منفرد خوبصورتی اور حُسن رکھتی ہے۔
اس عمارت کو دیکھ کر دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکا کے صدر کی سرکاری رہائشگاہ وائٹ ہاؤس کی تصویر ذہن میں آتی ہے۔ امریکا کا وائٹ ہاؤس 216 سالوں سے امریکی صدر کی رہائشگاہ ہے تاہم لاہور کے مال روڈ پر موجود وائٹ ہاؤس سے ملتی جلتی یہ عمارت سیاست کا نہیں بلکہ علم کا مرکز ہے۔
عمارت کا مرکزی حصہ مال روڈ کی جانب ہے جسے لارنس ہال کہا جاتا ہے اور اس کے بیرونی حصے پر چار ستون، دیوار پر لگی کھڑکیوں کی ترتیب امریکی وائٹ ہاؤس کا عکس لگتی ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں پنجاب سے فوجیوں کی کھیپ دہلی پہنچائی جاتی رہی اور اس کھیپ کی تیاری میں اُس وقت کے وائسرائے سر جان لارنس (57-1853) کی حکمتِ عملی انتہائی موثر تھی، جس کی بناء پر جنگ میں انگریزوں کو فتح ہوئی۔
تاج برطانیہ نے لارنس کی خدمات کے عوض مال روڈ پر 117 ایکڑ رقبے پر پر گورنر ہاؤس کے بالکل سامنے لارنس گارڈن بنایا۔ لارنس ہال کی لمبائی 65فٹ جبکہ چوڑائی ساڑھے 32 فٹ ہے جس پر اُس وقت 34 ہزار ہندوستانی روپے خرچ ہوئے۔ لارنس ہال کا تعمیراتی کام ایسٹ انڈیا کمپنی کے چیف انجینئر جی سٹون کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ 1867ء میں اس لارنس ہال کے ساتھ منٹگمری ہال تعمیر کیا گیا جو اس وقت کے گورنر پنجاب رابرٹ منٹگمری (65-1859) کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تعمیر ہوا۔