چند یادیں احمد رشدی کی
مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت کالج کی طالبہ تھی۔ ایک گلوکار کی مدھر بھری آواز نے میری سماعتوں کو جیسے قید سا کر لیا تھا۔ بات کچھ یوں تھی کہ ہمارے وین ڈرائیور موسیقی کے بغیر گاڑی چلانے کے عادی نہیں تھے، تو ہمیں موسیقی سننی ہی پڑتی تھی، لیکن یہ بات بہرحال ماننے کے لائق ہے کہ ہمارے وین ڈرائیور کا میوزک کے بارے میں ذوق بہت اعلیٰ پائے کا تھا۔
خیر آج میں اپنی پروفیشنل لائف میں ہوں لیکن اس خوب صورت آواز کا جادو اب تک نہیں بھلا پائی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر پاکستانی فلموں کو اچھی موسیقی، بہترین دھنوں اور ورسٹائل گلوکاروں کا حسین امتزاج میسر نہ ہوتا تو وہ کبھی اتنی مقبول نہ ہوتیں۔
احمد رشدی بھی ایک ایسا ہی نام ہے جو اپنی انفرادیت کے باعث ایک جداگانہ مقام رکھتا ہے۔ ایک ایسا گلوکار جنہوں نے اس وقت اپنے آپ کو منوایا جب پلے بیک گائیکی میں شہنشائے غزل مہدی حسن، ایس بی جون، مسعود رانا، سلیم رضا اور دیگر سب ہی اپنا اپنا کردار نبھا رہے تھے۔
میری طرح آپ سب کو بھی یاد ہوگا کہ ہم سبھی بچپن میں ان کے دو مشہور گانے تو ضرور گنگنایا کرتے تھے۔ ایک گانے میں کچھ جھیل سی آنکھوں کا ذکر تھا اور پھول سے چہروں کی باتیں بھی تھیں، جی بالکل احمد رشدی نے وہ گانا ہمارے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے لیے گایا تھا اور اس فلم کا نام ’ارمان‘ تھا اور گانا اب یہ بھی کیا بتانے کی ضرورت ہے جناب گانا وہی ’کو کو کورینا‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس گانے کو جنوبی ایشیاء میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اسی گانے سے احمد رشدی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ یہی شہرت بچوں کے لیے گائے جانے والے گیت ’گول گپے والا آیا، گول گپے لایا‘ کو حاصل ہوئی۔
48 سال کی عمر پانے والے یہ ورسٹائل گلوکار 1934 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا اور والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔
احمد رشدی ابتداء ہی سے اداکار بننا چاہتے تھے لیکن قسمت انہیں موسیقی کی طرف لے آئی۔ انہوں نے ایک درجن کے قریب فلموں میں ثانوی رول بھی کیے، لیکن کامیابی نہ مل سکی، تاہم اپنی خوب صورت آواز اور انداز کی بنا پر وہ فلم کی کامیابی کی ضمانت ضرور بن گئے۔
رشدی کی گائیکی کے جس جس پہلو کا احاطہ کریں، وہ مکمل نظر آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ انہوں نے سولو، ڈسکو، پاپ میوزک، کلاسیکل میوزک، ہپ ہاپ میوزک، راک اینڈ رول ان تمام اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، لیکن غزل کے میدان میں بھی اپنا کردار بھرپور انداز سے نبھایا۔ میں خاص طور پر یہ کہوں گی کہ انہوں نے نصیر ترابی کی غزلوں کو ایک نئی زندگی بخش دی۔
احمد رشدی نے موسیقی کی کوئی بنیادی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ کسی بھی گانے پر ایموشنل اداکاری بھی ایسی کرتے تھے کہ دیکھنے والا کھو سا جاتا تھا۔
کامیڈی ہو یا پیروڈی، وہ اپنی محنت سے گانے کے بولوں میں جان ڈال دیتے تھے۔ انہوں نے وحید مراد کے لیے تقریباً 150 گانے گائے جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ موسیقار ایم اشرف کی ترتیب کردہ دھنوں پر ایک سو سے زائد گانے اور مالا کے ساتھ ایک سو دوگانے گانا بھی انہی کا اعزاز ہے۔
پانچ نگار ایوارڈز، بیسٹ سنگر آف ملینیئم، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، لیجنڈ ایوارڈ، لکس اسٹائل ایوارڈ، اور 2003 میں ان کی وفات کے بیس سال بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ستارہء امتیاز سے نوازنا بھی میں سمجھتی ہوں کہ ان کی موسیقی کے میدان میں خدمات کا بہت کم اعتراف ہے۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ قومی ترانہ گانے والے دس گلوکاروں میں احمد رشدی بھی شامل ہیں۔
وہ کلاسیکل موسیقی سے واقفیت نہیں رکھتے تھے تاہم ہر لفظ کو سر کے مطابق ڈھال لیتے تھے۔ 1940 میں انہوں نے فلم 'آنچل' کے لیے ایک المیہ گیت 'کسی چمن میں رہو تم' گایا۔ انہوں نے اس سے قبل المیہ گیت نہیں گائے تھے اور فلم انڈسٹری میں سیلم رضا مرحوم کا طوطی ہی بولتا تھا۔
موسیقار خلیل احمد نے ان کے بارے میں فلم ڈائریکٹر کو بھی کہا تاہم کوئی بھی اتنا بڑا رسک لینے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن سلیم رضا اور پھر خلیل احمد نے اپنی نوکری کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ڈائریکٹر صاحب کو قائل کیا اور یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔
احمد رشدی نے بہت سی زبانوں میں گانے گائے اور ایک پاکستانی فلم کے لیے انگریزی میں بھی گانا گایا۔ اردو، گجراتی، مراٹھی، تامل، تلگو، بھوجیوری، سب زبانوں میں گانے گائے لیکن پنجابی گانوں سے زیادہ ان کے اردو کے شوخ گانے زیادہ مشہور ہوئے۔
احمد رشدی بڑے، بوڑھے، بچوں اور خواتین سب میں یکساں مقبول تھے۔ 1954 میں انہوں نے مہدی ظہیر کا لکھا ہوا گیت ’بندر روڈ سے کیماڑی تک‘ گایا اور یہ بچوں کے پروگرام ’بچوں کی دنیا‘ کے لیے تھا۔
احمد رشدی نے ریڈیو سے موسیقی کے سفر کا آغاز کیا اور 1983 میں آخری گانا آذر حفیظ کا تحریر کردہ گایا، جس کے بول کچھ یوں تھے ’آنے والو سنو‘ گایا۔ 1959 میں لاہور مدعو کیے گئے جہاں انہوں نے فلم ’راز‘ کے لیے گانے ریکارڈ کروائے۔ ایک گانا جو اس فلم کے لیے انہوں نے زبیدہ خانم کے ساتھ گایا ’چھلک رہی ہیں مستیاں‘، وہ آج بھی لوگوں کے ذہن و دل پر نقش ہے۔
فلم ’انوکھی‘ میں ایک مزاحیہ گانا تھا 'ماری لیلی نے ایسی کٹار'؛ یہ گانا لہری صاحب پر فلمایا گیا تھا اور یہ ان کی پہلی فلم تھی۔ یہ گانا بہت مقبول ہوا) اور اداکار لہری کے فنی سفر پر اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ پرانی فلموں کے شائقین ’مہتاب‘ فلم کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا گانا ’گول گپے والا آیا، گول گپے لایا‘ سنتے ہی کھٹے میٹھے گول گپے ذہن میں آتے ہیں۔
احمد رشدی پاکستانی فلم انڈسٹری کا ستون تھے۔ انہوں نے 583 فلموں کے لیے کم و بیش پانچ ہزار گیت گائے، جس میں ہندوستانی فلم ’عبرت‘ بھی شامل ہے۔
یہ عظیم گلوکار آج ہم میں نہیں اور اس فانی دنیا کو 11 اپریل 1983 کو چھوڑ گئے، لیکن ’کو کو کورینا‘ کی جھیل سی گہری آنکھیں اب بھی ذہن کے کسی کونے میں موجود ہیں۔
راضیہ سید دس سال سے شعبہء صحافت سے بطور رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں، اور پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز ڈگری رکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔