ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق شہید ملت روڈ کے گرین بیلٹ پرلگے 70 گھنے درختوں کو کاٹنے کا مقدمہ بلڈر کے خلاف درج کیا گیا۔
روڈ پر واقع پروجیکٹ کی خوبصورتی درختوں میں چھپنے کے باعث درخت کاٹے گئے تھے۔
کمشنر کراچی آصف حیدر شاہ نے گرین بیلٹ پر 70 درخت کاٹے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کراچی شرقی کو واقعہ کی تحقیقات کے احکامات دیئے۔
تحقیقات میں ثابت ہوا کہ بلڈر نے اپنے عملے کی مدد سے رہائشی پروجیکٹ کی خوبصورتی واضح کرنے کے لیے گرین بیلٹ پر لگے 70 درخت کاٹ دیئے تھے۔
ڈپٹی کمشنر ضلع شرقی کی تصدیق کے بعد کمشنر کراچی کے حکم پر بلڈر اور عملے کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
مقدمہ سندھ گورنمنٹ لوکل ایکٹ 2013 کے تحت فیروزآباد تھانے میں درج کیا گیا۔
فیروز آبادتھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) نے مقدمے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مقدمہ تعمیراتی ادارے گوہر گروپ آف کمپنیز کے خلاف درج کیا گیا۔
حکام کے مطابق مقدمے میں گوہر بلڈرز کے منیجر مظہر حسین اور دیگر افراد کو نامزد کیا گیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال جون 2015 کے آخری 10 روز میں شدید گرمی کے باعث کراچی میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق شہر میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ ہوا جبکہ بارشیں نہ ہونا بھی شجر کاری نہ ہونے کے باعث ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے رفیع الحق کے مطابق درخت لگانے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
رفیع الحق کا کہنا تھا کہ کنکریٹ کی عمارتوں نے شہر کا دم گھونٹ دیا ہے اور ہمیں درخت لگا کر اسے بحال کرنا چاہیے۔
تقریباً ایک دہائی قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کراچی بلدیاتی حکومت میں سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے شہر کی آلودگی ختم کرنے کے لیے 25 لاکھ ایسے درخت لگائے تھے، جو آلودگی تو کیا ختم کرتے مگر یہ لوگوں میں الرجی کا سبب بننے لگے۔
رفیع الحق کے مطابق پودوں کا یہ انتخاب تحقیق کی کمی کی وجہ سے تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کو نیم کے درختوں کی ضرورت ہے، جو اس سخت آب و ہوا کو جھیل سکیں یہ درخت لگانے کا بہترین وقت 15 جولائی سے 15 ستمبر تک ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ جولائی 2015 میں ہی سندھ کے اس وقت کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے محکمہ بلدیات اور ماتحت اداروں کی مدد سے 2 ماہ میں سندھ میں 30 لاکھ درخت لگانے کا اعلان کیا تھا، جس میں جولائی اور اگست میں صرف کراچی میں 10 لاکھ درخت لگائے جانے تھے لیکن شرجیل انعام میمن کی جانب سے اس اعلان پر کسی بھی قسم کا عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔
خیال رہے کہ شرجیل میمن سے دسمبر 2015 میں محکمہ بلدیات کا قلمدان واپس لے لیا گیا تھا، وہ گزشتہ برس سے ہی بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہے، فروری 2016 میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے حکومتی اشتہارات کی مد میں سرکاری خزانے کو 5ارب روپے کا نقصان پہنچایا.
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔