2سابق ججزکاجوڈیشل کمیشن کی سربراہی سےانکار
اسلام آباد: پاناما لیکس کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف کے اہلخانہ کی آف شور کمپنیوں سے متعلق معلومات سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے اس معاملے کی تحقیقات کروانے کے لیے تیار ہیں۔
کلر سیداں میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اگر ایف آئی اے سے تحقیقات کروانا چاہتے ہیں تو وزارت داخلہ اس کے لیے تیار ہے لیکن اس کا فیصلہ وزارت داخلہ نہیں کرتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان ایف آئی اے میں جس بھی افسر یا افسران کی ٹیم کا نام لیں گے، اسی کو بااختیار تحقیقاتی ٹیم بنا دیا جائے گا، لیکن اب صرف الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو قوم کے ذہن کو مفلوج کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ’آف شور‘ اکاؤنٹس کیا ہیں؟
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود اس بات کی تحقیقات اس لیے شروع نہیں کی کیونکہ ایسا کرنے پر کہا جاتا کہ ایف آئی اے وزیر داخلہ کے ماتحت ہے، اس لیے وفاقی وزیر نے اپنی مرضی کے شخص کو تحقیقاتی افسر بنا دیا ہے لیکن اب عمران خان نے مطالبہ کیا ہے تو میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تحقیقاتی افسر یا ٹیم نامزد کریں۔
آف شور کمپنیوں کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ 'مجھے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ آف شور کمپنیاں کیا ہوتی ہیں، 4 دن میں اس کی تحقیق کی، جب مجھے نہیں معلوم کہ آف شور کمپنیاں کیا ہوتی ہیں تو قوم کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔'
مزید پڑھیں : شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
چوہدری نثار نے کہا کہ پاناما لیکس کے ذریعے سامنے آنے والی معلومات فی الحال صرف الزام ہے، روس، برطانیہ، ارجنٹائن سمیت دیگر ممالک کا کہنا ہے کہ یہ سب معلومات جھوٹ ہیں، صرف وزیراعظم پاکستان نے نوٹس لے کر خود تقریر کی اور جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی خواہش تھی کہ کمیشن کی سربراہی کوئی سابق چیف جسٹس کریں اور جوڈیشل کمیشن کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے 2 سابق چیف جسٹس صاحبان سے رابطہ بھی کیا لیکن اپوزیشن کی جانب سے الزامات اور شور شرابے پر ان جج صاحبان کی جانب سے اجتناب کیا گیا، کوئی سابق چیف جسٹس خود کو ان الزام تراشیوں کا حصہ نہیں بنانا چاہتے۔
یہ بھی پڑھیں : پاناما پیپرز: پاکستانیوں کے متعلق انکشافات
وزیر داخلہ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام میں اس لیے تاخیر ہوئی کیوںکہ اعلیٰ ترین جج صاحبان کی جانب سے اجتناب کیا گیا، جبکہ حکومت نے غیر مشروط طور پر کمیشن کی سربراہی کی پیشکش کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن طوفان بد تمیزی کم کرے تاکہ کوئی شریف آدمی اور اعلیٰ ترین جج آ کر حقیقت قوم کے سامنے لے کر آئے کہ آف شور کمپنیاں اور پاناما لیکس کیا چیز ہے۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ عمران خان کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر خطاب کی خواہش ظاہر کی گئی ہے اگر ان کو خطاب کی اجازت مل گئی تو کیا کل کو مجھے بھی پی ٹی وی پر خطاب کی اجازت مل سکے گی؟ اس پر چوہدری نثار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ خطاب کی اجازت بالکل نہیں ملے گی، اس کی وجہ یہ کہ ان کا استحقاق نہیں ہے، دنیا بھر میں سرکاری ٹی وی پر خطاب صرف صدر یا وزیر اعظم کرتا ہے، کبھی اپوزیشن لیڈر بھی سرکاری ٹی وی پر خطاب نہیں کرتا، عمران خان تو اپوزیشن لیڈر بھی نہیں ہیں، ان کی تو قومی اسمبلی میں صرف 30 نشستیں ہیں۔
پاکستان کے حکمران خاندان کی رہائش گاہ رائے ونڈ کی طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان کے حوالے سے سوال پر چوہدری نثار نے کہا کہ اس بارے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے سوال کیا جائے، الزام تراشی اور دھرنوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔
واضح رہے کہ 5 روز قبل انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور قانونی مدد فراہم کرنے والے ادار موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات میں پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔
پاناما لیکس میں بتایا گیا کہ کس طرح دنیا بھر کے امیر اور طاقت ور لوگ اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں۔
ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
وزیر اعظم کے بچوں کے علاوہ دیگر کئی سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات کا نام بھی ان معلومات میں سامنے آیا ہے۔
یہ معلومات سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بعد ازاں وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر قوم سے سرکاری ٹی وی پر خطاب میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس:وزیراعظم کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان
اس اعلان کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پاناما لیکس پر وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی ماہرین سے آڈٹ کروانے کا مطالبہ کردیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینئر رہنما شازیہ مری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے قائم ہونے والا کمیشن تحقیقات مکمل نہیں کرسکتا اور وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجانا چاہیے۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی بھی یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ اگر آف شور کمپنیاں قانونی بھی ہوں تو بھی ان میں رکھا پیسہ ملک کو واپس کیا جائے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔