خطرناک ٹھپے
بین الاقوامی، قومی، معاشرتی اور انفرادی سطح پر سیاسی، عسکری، معاشی اور انفرادی مفادات کے حصول کے لیے میڈیا، تعلیم، تکلّم اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے چند الفاظ اور اصطلاحات کو کسی قوم، گروہ یا افراد کے خلاف اس تواتر کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے کہ قاری یا سامع کو ان پر اندھا یقین ہوجاتا ہے اور وہ ان الفاظ و اصطلاحات کی صداقت پر شک کرنے سے قاصر بن جاتا ہے۔
ایسے الفاظ، اصطلاحات اور فقروں کو انگریزی زبان میں cliché (کلیشے) کہا جاتا ہے۔ یہ اصل میں ایسے ٹھپّے ہوتے ہیں جو اپنے مخالفین پر ہر سطح پر لگائے جاتے ہیں۔
الفاظ جیسے دہشت گرد، بنیاد پرست، وطن دشمن، غدّار، لبرل فاشسٹ، لادین، انتہا پسند، سیکولر، مہذب، مرتد، شدّت پسند، سماجی اقدار، قومی غیرت، ملحد، کافر، عسکریت پسند، طاغوتی قوتیں، اسلامسٹ، کمیونسٹ، اسلاموفوبیا، بدعتی، سماج دشمن اور روشن خیال وغیرہ ایسے ہی ٹھپّے ہیں کہ جن کو کسی قوم، گروہ یا فرد پر لگا کر اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی اور قومی سطح پر ایسے ہی پروپیگنڈا کے لیے خاص محکمے بنائے جاتے ہیں جیسے کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات یا پھر تعلیم کا محکمہ۔ یہی محکمے میڈیا اور تعلیم کے ذریعے ان ٹھپّوں کو مخالفین پر اس تسلسل سے لگاتے ہیں کہ عوام ان پر بلا چوں و چرا یقین کر بیٹھتے ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی ان ٹھپّوں کو مختلف طریقوں سے میڈیا، سوشل میڈیا اور معاشرتی میل جول کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔
اس کام کے لیے نئے الفاظ کو گھڑا جاتا ہے یا پھر پہلے سے موجود کسی لفظ کو نیا لباس پہنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مثلاً لفظ دہشت گرد (terrorist) پر غور کیجیے۔ نوّے کی دہائی سے پہلے یہ لفظ اردو میں مستعمل نہیں تھا۔ اسی طرح بنیاد پرست (fundamentalist)، انتہا پسند، اسلامسٹ (Islamist)، اسلاموفوبیا (Islamophobia)، لبرل فاشسٹ (Liberal fascist) جیسے الفاظ بھی پہلے اس تواتر سے استعمال نہیں ہوتے تھے۔
اسی طرح ہماری قومی، معاشرتی اور مذہبی بحث اور مکالموں میں غدّار، وطن دشمن، لادین، بدعتی، ملحد، سیکولر، کافر، روشن خیال اور مرتد جیسے الفاظ کا اس قدر استعمال نہیں ہوتا تھا۔
جدیدیت اور اس کے اثرات یعنی آبادیاتی اور امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کے دوران وحشی، مہذب، غیر جمہوری، انسان دشمن، آمریتی، انسانی حقوق کی پامالی، استعماری جیسے ٹھپّوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔
ان الفاظ کو عوامی سطح پر ان کے بار بار استعمال سے یہ معنیٰ دیے جاتے ہیں ورنہ یہ خود بے معنیٰ لگتے ہیں، یا پھر عالمی سطح پر ان کے وہ معانی نہیں ہوتے جو عوام کے ذہنوں میں بٹھائے جاتے ہیں۔
کوئی قوم، گروہ یا فرد اگر آپ کے مفاد کا تحفظ کرے تو اس گروہ، قوم یا فرد کے لیے کوئی دوسرا لقب دیا جاتا ہے۔ مگر جب یہی گروہ، قوم یا فرد اس مفاد کی راہ میں حائل ہو تو ان ٹھپّوں کے ذریعے ان کو زیر کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جب امریکا کا مفاد افغانستان میں تھا، تو وہاں پر سوویت یونین کے خلاف برسرِپیکار لوگوں کو دنیا کا طاقتور ترین مغربی میڈیا 'مجاہدین' کہہ کر پکارتا تھا۔
مجھے یاد ہے جب میرے والد محترم اس وقت برطانوی، جرمن، امریکی یا پاکستانی نشریاتی اداروں پر اردو میں خبریں سنتے تھے تو افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والوں کو یہ ادارے 'مجاہدین' کہہ کر وہاں کی خبریں دیتے تھے۔ بلکہ اس زمانے کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے تو ان 'مجاہدین' رہنماؤں کو بانیانِ امریکا جیسے جارج واشنگٹن اور دیگران کا اخلاقی ہم پلہ تک قرار دے دیا تھا۔
لیکن 80 کی دہائی کے اواخر میں جوں ہی سویت یونین کو افغانستان سے نکلنا پڑا، تو یہی 'مجاہدین' ان عالمی نشریاتی اداروں میں آہستہ آہستہ عسکریت پسند، شدّت پسند اور حکومت مخالف جیسے القابات سے یاد کیے جانے لگے۔ جب ان ہی مجاہدین میں سے ’طالبان‘ وجود میں آگئے تو شروع میں ان نشریاتی اداروں کے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے کہ جن سے اس نئے گروہ کو نوازا جاتا۔
اس وقت چونکہ یہ لوگ امریکا اور حلیفوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے، لہٰذا ان کی دلچسپی بھی نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ جب یہی سابقہ حلیف خطرہ بننے لگے تو ان کے لیے دہشت گرد (terrorist) کا ٹھپّا چنا گیا اور اب یہ لفظ اتنا مستعمل ہوچکا ہے کہ دنیا کے میڈیا میں ہر بلیٹن اور خبر میں اس کا استعمال ہونے لگا ہے۔
یہی صورت حال دوسرے ٹھپّوں کی بھی ہے۔ قومی سطح پر اپنے سیاسی مخالفین کو وطن دشمن، سکیورٹی رسک اور غدّار قرار دے کر ان کا بیڑا غرق کیا جاتا ہے۔
یورپ اور امریکی سیاسی و معاشرتی مکالمے میں اسلامسٹ لفظ کا بھی استعمال کمیونسٹ کی طرح خوف پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر گیارہ ستمبر 2001ء کے حملے کے بعد جب بھی کسی مسلمان گروہ کی طرف سے حملہ ہوتا ہے تو وہاں مسلمانوں سے خوف میں اضافہ ہوتا ہے اور دہشتگردوں کے لیے مخصوص لفظ 'اسلامسٹ' کا زور و شور سے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہیں بعض لوگ اس مظہر کو اسلاموفوبیا (اسلام کا خوف) سے تعبیر کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں بھی ان ٹھپّوں کا استعمال ہر سطح پر خوب کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اگر خاص مذہبی سیاسی گروہوں کی ’سیاسی‘ افکار اور مذہبی تعبیر سے متفق نہیں تو ان پر لبرل فاشسٹ، سیکولر، لادین، ملحد، مرتد، بدعتی یا دہریے کا ٹھپّا لگا کر خاموش کیا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ان ٹھپّوں کا بڑا تعلق اس افغان جنگ سے بھی ہے جس کو اس وقت کے پاکستانی حکومتوں اور سیاسی و مذہبی طبقوں نے امریکا کے لیے اپنی سیاسی و معاشی بقا کے لیے لڑا۔ اس وقت سے پاکستانی معاشرہ واضح طور پر کئی نظریاتی گروہ میں بٹ گیا اور ایک نہ ختم ہونے والی اندرونی شورش شروع ہوئی۔
یہی صورت حال قومی غیرت، طاغوتی قوتیں اور سماجی اقدار جیسی اصطلاحات کی ہے۔ ہمیں کبھی نہیں بتایا جاتا کہ یہ قومی غیرت، طاغوتی قوتیں یا سماجی اقدار ہیں کیا۔
مثال کے طور پر ہمیں سماجی اقدار کی پاسداری کے درس پر درس دیے جاتے ہیں لیکن کبھی نہیں بتایا جاتا کہ یہ ہیں کیا۔ سماجی اقدار مطلب سماجی قدریں، وہ چیزیں جو ہمارے سماج میں رائج ہیں۔ تو ان میں وہ اقدار بھی آجاتے ہیں جب کوئی پنچائیت 5 مردوں کو کسی عورت کے ساتھ زیادتی کرنے کا حکم دے، کسی سماج میں خاندانی اور کمی کمین کی تفریق صدیوں سے پڑی ہو، کسی سماج میں قدرتی وسائل پر تصرف اور مراعت کا حق صرف چند با اثر خاندانوں کے پاس ہو، سیاست صرف امیروں، سرداروں اور سرمایہ داروں کا حق ہو، عورت کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہو، طاقت اور تقویٰ کے معیارات زمین، خاندان یا دولت ہو یا پھر جب بدعہدی اور بد عنوانی پر فخر کیا جائے۔ تو کیا سماجی اقدار کا درس دینے والے ان سماجی اقدار کا بھی تحفظ چاہیں گے؟
یہ ٹھپّے ہر سطح پر خطرناک ہیں۔ ان کے ذریعے عالمی طاقتور اپنی مرضی دنیا کی قوموں پر ٹھونس دیتے ہیں۔ یہ ٹھپّے قومی سطح پر مکالمے اور اختلاف کی گنجائش کو ختم کردیتے ہیں اور مخالفین کو مار ڈالنے کی اور معاشرے کو اس پر خاموش رہنے کی سند عطا کرتے ہیں۔ ایسے میں معاشرے میں صرف یہ ٹھپّے رہ جاتے ہیں اور انسان بیچ میں سے غائب ہوجاتا ہے۔ ان ٹھپّوں اور ان سے جڑے معانی شورش اور مفادات کی پیداوار ہیں اور ان کو حقیقت سمجھنے کے بجائے صرف سیاسی، معاشی اور سماجی مفادات سمجھنا چاہیے، کیونکہ ان پر یقین کرنا دوسرے کے مفادات کا محافظ بننے کے مترادف ہے۔
زبیر توروالی انسانی حقوق کے کارکن اور ریسرچر ہیں۔ وہ ادارہ برائے تعلیم و ترقی سوات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ztorwali@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔