ایک تھا آدم پٹیل
سورج کب کا اگ آیا تھا پر گرمیوں کی دوپہر میں ابھی وقت تھا۔ میں نے ایک بجے کے قریب بدین شہر کو چھوڑا اور جنوب کی طرف نکل پڑا، شہر سے باہر دو تین کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد ایک پُل آتا ہے۔ آپ جیسے ہی اُس سے گزرتے ہیں تو سارا لینڈ اسکیپ تبدیل ہو جاتا ہے۔ زمینوں میں جہاں فصلیں ہیں وہاں ہریالی ہے اور جن زمینوں سے گندم اور گھاس کٹ گئی ہے وہاں بھینسیں، بکریاں اور بھیڑیں گھاس کے تنکے ڈھونڈتی نظر آتی ہیں۔
اب یہ ہر ایک کی مرضی پر منحصر ہے کہ انہیں گھاس کھاتے دیکھے یا نہ دیکھے، لیکن میں تو دیکھتا رہا کہ میرے پاس یہ سب کچھ دیکھنے کے علاوہ اور کچھ دیکھنے کو نہیں تھا۔ شہر بہت دور رہ گیا تو اچھا راستہ بھی وہیں رہ گیا۔ اب سڑک کا نام رہ گیا ہے جس پر گاڑی چلتی کم ہے ہچکولے زیادہ کھاتی ہے۔
یہ سب اس لیے ہے کہ میں بدین سے پچاس کلومیٹر دوُر اُس گاؤں میں جا رہا ہوں جو اس طرف سرحد کا آخری گاؤں ہے۔ اس گاؤں کی جنوبی بغل میں لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) کا نمکین پانی سے بھرا نالہ بہتا ہے جس نے اس زرخیز پٹی کی زرخیزی کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا ہے۔ اس فلاپ پراجیکٹ کے پیسے دیے ورلڈ بینک نے، غلط پلاننگ کی واپڈا نے، سزا ملی ان جیسے سیکڑوں زرخیز زمینوں، جھیلوں اور وہاں کی مکینوں کو۔
ایل بی او ڈی پراجیکٹ کا اصل مقصد سندھ کے تین اضلاع سانگھڑ، میرپورخاصاور نوابشاہ سے زیرِ زمین کھارے پانی کے سمندر میں اخراج تھا، تاکہ اناضلاع میں زراعت کو بہتر بنایا جا سکے. زراعت تو بہتر ہوئی سو ہوئی، لیکنٹائیڈل لنک کہلانے والا نالے کے آخری حصہ میں ڈیزائن کی غلطی نےسمندر کو زرخیز زمینوں تک آنے کے لیے راستہ فراہم کیا.
چنانچہ جب سے یہ نالہ تعمیر کیا گیا ہے، تب سے اتنا کھارا پانی سمندر میںنہیں گرا، جتنا سمندر سے اس میں آیا ہے. 2006 میں ورلڈ بینک نے ٹائیڈللنک کو مکمل طور پر ناکام قرار دے دیا، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی.
اس آخری گاؤں میں کسی بسری ہوئی یاد کی طرح کبھی دھان کی مختلف اقسام کے کھیت لہلہاتے تھے۔ گاؤں کے مشرق، مغرب اور شمال میں میٹھے پانی کی جھیلیں تھیں۔ گھاس، پھوس، سرکنڈے ان جھیلوں کے کنارے اُگتے۔ کہتے ہیں وہ جھیل ہی کیا جس کے کنارے جاڑوں میں سرکنڈوں کی گائے کے دودھ جیسی سفیدی نہ جھولتی ہو! پھر ان جھیلوں میں کنول کے پھول کھلتے، جاڑوں میں مہمان پرندے آتے، اطراف میں چھوٹے چھوٹے میلے لگتے تو لوک داستانیں سُنتے سُنتے مشرق کے ماتھے پر صبح کی سُرخی پھیل جاتی۔ اوطاقوں پر مہمان آتے تو جاڑوں کی راتوں میں الاؤ جلتے اور زمانے کی باتوں میں آدھی رات کٹ جاتی۔
یہ وہ دن تھے جب 'آدم پٹیل' پر جوانی کسی ساون کی بارش کی طرح برستی تھی۔ اُس کے باپ کا نام علی بخش تھا۔ 400 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ساری کی ساری زرخیز و آباد زمین میں ہل چلانے کے لیے اس کے پاس بیلوں کے آٹھ جوڑے تھے۔
باپ کے گزرنے کے بعد یہ سب آدم پٹیل کا ہوا۔ شام کو شاندار گھوڑے پر وہ زمینوں کے چکر لگاتا۔ اپنی ذات برادری کا وہ بڑا تھا اس لیے 'پٹیل' کا لقب اس کا حق ٹھہرا۔ سارے چھوٹے بڑے فیصلے اس کی اوطاق پر ہوتے۔ وقت سب کا ہے، وقت کسی کا نہیں۔ اُسے بس گزر جانا ہے اور وہ گزر گیا۔ میں جب 2004ء میں آدم پٹیل سے ملا تب اس کا سب کچھ لُٹ چکا تھا۔ سارے علاقے کی خوبصورتیاں وقت نے اپنے بے رحم ہاتھوں سے نوچ لی تھیں۔