دھونی ویرات کوہلی کے دور میں
'آئیے کچھ تفریح کرتے ہیں،' کپتان دھونی نے کہا۔
'کیپٹن کول' اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے باربار پوچھے گئے سوالات سے عاجز آ چکے تھے اور یہ وقت اب پریشان کن صحافیوں پر جوابی حملے کا تھا۔ تو انہوں نے اپنے قریب کرسی کھینچی اور آسٹریلوی صحافی کو اسٹیج پر اپنے برابر میں بلا لیا۔
'میں توقع کر رہا تھا کہ یہ سوال کوئی ہندوستانی صحافی کرے گا'، دھونی کا ہدف واضح تھا، مگر ان کی حسِ مزاح واضح نہیں تھی۔
جب جوکووچ ایک بال بوائے کو اپنے برابر میں بیٹھنے کے لیے بلائیں، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اچھے شخص ہیں۔ مگر جب دھونی نے سیموئیل فیرس پر اپنا ہاتھ رکھا تو یہ واضح تھا کہ صورتحال اب ان کے کنٹرول میں تھی۔
کپتان معمول سے ہٹ کر کچھ کرتے وقت مطمئن اور معمول کے مطابق نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن ہم میں سے اکثر کے لیے ان کا رویہ تضحیک آمیز اور پہلے سے طے شدہ تھا۔
حالیہ وقتوں میں ہندوستان کو دو غیر معمولی کپتان ملے ہیں. ساروو گنگولی نے لارڈز کی بالکونی میں جرسی کے ساتھ اور جرسی کے بغیر طمطراق سے اپنے جذبے کا اظہار کیا اور دھونی ایسے ہیں جنہوں نے جیتے جانے کے لیے موجود ہر ٹرافی جیتی، وہ بھی چہرے کے تاثرات میں کسی تبدیلی کے بغیر.
مگر یہ مشکل دور ہے، اور یہ دور ویرات کوہلی کا ہے، اور بالآخر دھونی کے تحمل مزاج ہونے کا مشہور نقاب اترتا ہوا محسوس ہو رہا ہے.
یہ صرف اس پریس کانفرنس کے حوالے سے نہیں ہے۔ ورلڈ کپ میں جب مداح ہر میچ کے بعد ان کی حکمتِ عملی پر سوال اٹھانے لگے، تو دو دفعہ عام طور پر ضبط سے کام لینے والے دھونی صحافیوں پر بلااشتعال برس پڑے۔
روی چندرا ایشون کو اسپن وکٹ پر اپنا کوٹہ پورا کرنے نہ دیتے ہوئے سیمی فائنل جیسے اہم میچ میں ویرات کوہلی کو آخری اوور دینا کچھ ایسے فیصلے ہیں جو غلطی سے زیادہ حماقت محسوس ہوتے ہیں۔
اگر یہ مخالف کو بیک فٹ پر پھانسنے کا دھونی کا ایک طریقہ تھا تو یہ الٹا کام کر گیا ہے۔
پھر 11 کھلاڑیوں کی ٹیم میں ان کی ایک چھوٹی ٹیم ہے۔ شیکھر دھون، یووراج سنگھ، رویندرا جدیجا اور سریش رائنا کو عام طور پر دھونی کے لوگ تصور کیا جاتا ہے — ان میں سے کسی نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔ رائنا کی ناکامیوں کا سلسلہ تو تقریباً ہر میچ میں جاری ہے۔
کرکٹ کی تاریخ میں دھونی کی حیثیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ان کی جگہ لے سکتا ہے، لیکن یہ مشکوک فیصلے، جن پر گنگولی اور وریندر سہواگ جیسے سابق کھلاڑی بھی سوالات اٹھا چکے ہیں، ان کے اپنے الفاظ میں 'غلط وقت پر غلط اسلحہ' کہلائیں گے۔
خود کو کوہلی جیسے صلاحیتوں سے مالامال کھلاڑی کے سامنے پانے پر دباؤ اب نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
کوہلی اب اشتہارات کی مد میں دھونی سے کہیں زیادہ کماتے ہیں، اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ آج کے مہنگے ترین کرکٹر ہیں۔
اپنی سابق گرل فرینڈ اداکارہ انوشکا شرما کے دفاع پر وہ سماجی میڈیا میں ایک طویل عرصے تک ناقابل شکست رہیں گے۔ طعنے باز افراد کبھی بھی اتنی جلدی اتنے خاموش نہیں ہوئے، جتنا کہ کوہلی کے کیس میں ہوا۔
اگر کوہلی کے اتفاقی جارحانہ رویے اور غصہ کی وجہ سے بعض اوقات ان کی پختگی پر سوال اٹھتا ہے، تو انوشکا کے بارے میں ان کی ٹوئٹس اور ورلڈکپ میں مین آف دی سیریز کا ایوارڈ ان کی پختگی کی علامت ہے.
یہ وقت ہے کہ وہ کھیل کے ہر طرز میں کپتان کی حیثیت سے چارج سنبھالیں۔
لیکن، کیا یہ دھونی کے باہر ہونے کا وقت ہے؟
بطور کھلاڑی تو بالکل بھی نہیں. وہ اب بھی ہندوستان کے بہترین وکٹ کیپر ہیں. وکٹوں کے درمیان ان کی دوڑ تیز اور غضب ناک ہے (جیسا کہ انہوں نے خود بھی کہا) اور وہ ہندوستان کے لیے میچ کے بہترین خاتم ہیں۔
دھونی کا المیہ یہ بھی ہے کہ ان کے ارد گرد اوسط درجے کے کھلاڑیوں کا جمگھٹا ہے، بالخصوص باؤلرز، جن میں سے اکثر تو ہندوستان کی اے ٹیم میں بھی جگہ کے مستحق نہیں ہیں۔
اگر ایشون جیسا باصلاحیت اسپنر نوبال پھینکے تو ہم کپتان کو الزام نہیں دے سکتے. اس سے زیادہ ناقابلِ معافی کچھ نہیں ہوسکتا۔
تاہم اب وقت ہے کہ دھونی کے کچھ آدمیوں کو گھر بھیج دیا جائے.
ہندوستان اور شاید برصغیر بھر میں کرکٹرز کو دیوتا کا درجہ دیا جاتا ہے، اور بدقسمتی سے انہیں یہ درجہ فورآ ہی مل جایا کرتا ہے.
بے تحاشہ پیسہ، اور اتنی شہرت جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا. مگر اس سب کے درمیان وہ وقت کی پرواز سے لاعلم رہتے ہیں.
جس طرح کبھی دھونی کا دور تھا، اسی طرح اب یہ کوہلی کا دور ہے. لیکن چند سالوں بعد دنیا کے کسی اور کونے میں دوسرے صحافی ان کی بھی ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کے حوالے سے پوچھ رہے ہوں گے۔
یہ کرکٹ کی سب سے بڑی حقیقت ہے، اور اچھا ہوگا کہ کوہلی اس حقیقت کو یاد رکھیں.
جیوتسنا موہن بھارگوا سابق صحافی ہیں جو اب اپنا مکمل وقت بلاگنگ اور بچوں کی پرورش پر صرف کرتی ہیں۔
وہ سرحد کے دوسری طرف رہتی ہیں اور ٹوئٹر پر jyotsnamohan@ کے نام سے لکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔