شریف خاندان سے چند سوال
گرائے گئے بم پر آنے والا ردِ عمل متوقع ہے۔ شریف خاندان اور حکومتی ترجمان کے مطابق پاناما لیکس دستاویزات میں کسی غیر قانونی اقدام کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے، اور شریف خاندان نے کچھ غلط نہیں کیا۔
مالیات اور محصولات کے معاملوں میں فوری فیصلے، خاص طور پر کسی کو بری الذمہ قرار دینا، جاری کرنا بہت مشکل کام ہے۔ آیا مفصل اور خفیہ 'آف شور' کمپنیاں اور بینکنگ طریقہ کار اپنانے کے دوران پاکستانی اور غیر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے یا نہیں، یہ بات چند دن میں معلوم ہوجائے گی — کم از کم بین الاقوامی طور پر تو ضرور۔
پاکستان کے اندر، اور جبکہ ٹیکس اور زیادہ تر تفتیشی ادارے مکمل طور پر حکومت کے ماتحت ہیں، یہ بات بالکل بعید از قیاس ہے کہ وزیرِ اعظم کے خاندان اور ان کے مالی معاملات کے بارے میں کوئی مشکل پیدا کرنے والی بات سامنے آئے گی۔
شریف خاندان کے علاوہ بھی پاناما پیپرز میں جن افراد کے نام ہیں، وہ فائدے میں رہیں گے — شاید نیب کو چھوڑ کر چند ہی ایسے سرکاری تفتیش کار ہوں گے جو مسئلے کو عوام میں رہنے دینا چاہیں گے۔
بھلے ہی کوئی جرم نہ کیا گیا ہو، پھر بھی پاناما پیپرز پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے جرم کی داستان ہے۔ عوام صحیح فیصلے کرنے کا اختیار منتخب نمائندوں کو دیتے ہیں تاکہ وسیع تر ملکی مفاد کو یقینی بنایا جا سکے۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے، اور دوسروں کے اس مقام تک پہنچنے میں رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہے۔
یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ پاکستان کے امراء میں زیادہ تر سیاستدان کیوں ہیں؟ انہوں نے جو وسیع کاروبار قائم کیے ہیں، وہ ان کے زبردست دور اندیش ہونے کی ضمانت ہیں، مگر صرف تب تک جب تک اپنی ذاتی دولت کی بات ہو۔ ملکی معاملات کی بات آئے تو یہ دور اندیشی کہیں نظر نہیں آتی۔
اربوں کھربوں کے مالک پاکستانی سیاستدان عوامی پیسے کو درست جگہ استعمال کرنے اور سرکاری اداروں کو درست سمت میں رکھنے کے لیے وہ جادو نہیں چلا پاتے جس طرح وہ اپنے کاروبار چلاتے ہیں۔
نجی شعبے کے بڑے کھلاڑی نسبتاً بہتر ہیں جو ہمیشہ ریاستی امداد اور مسابقت ختم کرنے والی حکومتی مداخلت کے منتظر رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے امراء نے تقسیم کرنے کا عمل الٹا سیکھا ہے — ضرورت مندوں سے لو، اور ہوس پرستوں کو دو۔
ایک خود غرض اشرافیہ کا سب سے بڑا اور حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ نہ صرف انہوں نے پاکستان کو اپنی اقتصادی صلاحیت کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے سے روکا ہوا ہے، بلکہ یہ ہر دوسرے شخص سے بھاری قیمتیں بھی وصول کرتے ہیں۔
پاناما پیپرز نے ٹیکس سے بچنے اور کرپشن کا پیسہ چھپانے کے مفصل اور باریک منصوبوں کی قلعی کھول دی ہے۔ اس سب سے معاشرے پر ایک غیر منصفانہ بوجھ پڑتا ہے۔ پاکستان کے اشرافیہ براہِ راست ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں اور ہمارا ٹیکس نظام زیادہ تر بالواسطہ ٹیکسوں پر منحصر ہے۔ اور بالواسطہ ٹیکس، جیسے کہ خوراک، ایندھن اور بنیادی ضرورت کے اشیاء پر، ان عوام پر بوجھ ڈالتے ہیں جن عوام کی یہ اشرافیہ منتخب نمائندہ ہونے کی دعویدار ہے۔
تو جب شریف خاندان اس بات کا انکار کرتا ہے کہ انہوں نے کچھ بھی غیر قانونی کیا ہے، تو ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ بچائے جانے والے ٹیکس کے ہر روپے کا بوجھ کس پر پڑ رہا ہے؟
وزیرِ اعظم کے خاندان کو تو اس کے الٹ مثال قائم کرتے ہوئے ٹیکس ادائیگی میں سب سے آگے ہونا چاہیے تاکہ ان کی دیکھا دیکھی ملک کے باقی افراد بھی ٹیکس ادا کریں۔
یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ جب رائیونڈ ایک محل جیسی رہائش گاہ ہے، تو کیا اس کے ہوتے ہوئے بھی لندن میں محل جیسے فلیٹ خریدنے ضروری ہیں؟
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 5 اپریل 2016 کو شائع ہوا۔