بحر گر بحر نہ ہوتا، تو بیاباں ہوتا
جس سڑک سے میری گاڑی جا رہی تھی، اس کے دونوں اطراف ریت ہی ریت تھی۔ ریت میں اگی ہوئی جھاڑیاں، پودے اور کہیں کہیں چند درخت نظر آرہے تھے۔ جہاں تک نظر جا رہی تھی ریت کے ذرات ہی ذرات بکھرے ہوئے تھے۔ کہیں بکریوں کا ریوڑ جھاڑیوں میں منہ مار رہا تھا تو کہیں اونٹ پودے چر رہے تھے، مگر میری منزل تھی ننگر پارکر، جہاں صدیوں سے کارونجھر پہاڑ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی مقناطیس ہے جس کی کشش ہر اس وجود کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے جو اس کے سحر میں گم ہونا چاہتا ہے۔
مگر اس سے پہلے مجھے کچھ وقت مٹھی شہر اور آس پاس کے دیہاتوں میں گزارنا تھا اور یہاں کے لوگوں کی سادہ زندگی دیکھنی تھی، جو آج بھی اسی انداز میں گزر رہی ہے جو صدیوں قبل تھی۔
بارش کی پہلی بوند ریت پر پڑتے ہی ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں، کیونکہ انہیں پتا ہے کہ یہاں برسنے والی بارش خوشحالی لاتی ہے، ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے اور پانی کے گڑھے اور جوہڑ بھر جاتے ہیں۔
وہ خاندان جو قحط کی صورت میں سندھ کے بیراجی علاقوں میں محنت مشقت کرنے چلے جاتے ہیں، وہ لوٹ آتے ہیں۔ شاید انہیں بارش پڑتے ہی نم ہوتی ہوئی ریت کی خوشبو محسوس ہونے لگتی ہے۔ وہی ریت ان کے لیے سونا اگلنے لگتی ہے، جہاں بارش سب کے درد دور کرنے کی دوا سے کم نہیں ہے۔