سانحہ کوئی ہو، ردِ عمل ایک سا ہے
فون کی گھنٹی بجی، ٹون کی آواز کافی تیز تھی، اور اس پر چمکتا ہوا کالر کا نام ''امی جان'' تھا۔
مگر کسی نے بھی اس خوفزدہ والدہ کا فون نہیں اٹھایا۔
فون کی رنگ بجتی رہی؛ کسی میں کہاں اتنی ہمت تھی کہ فون اٹھائے؟ اس ماں کا بچہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا تھا، وہ بم دھماکے کا شکار کسی میدانِ جنگ میں نہیں ہوا بلکہ لاہور کے ایک پارک میں ایک جھولے پر ہوا، جہاں ہلہ گلہ تھا اور ہر سو مسکراہٹیں پھیلی تھیں۔
اب وہاں چھوٹے چھوٹے عضو اور خون سے داغدار کھلونے ٹوٹے شیشے کے ٹکڑوں کے درمیان بکھرے پڑے تھے۔
پہلے ہماری پولیس، فوج، نیوی اور رینجرز پر حملے کیے گئے، پھر مصروف بازاروں اور نمازیوں سے بھری مساجد کا رخ کر لیا گیا۔
جب انہوں نے اپنے اہداف خاردار تاروں اور سکیورٹی کی تہوں کے پیچھے محفوظ دیکھے، تو ان قاتلوں کی نگاہیں ہمارے بچوں پر پڑیں۔ پہلے اسکول اور اب پارکس۔
پاکستان کے بچے آخر کیوں ان دہشتگردوں کا نشانہ ہیں؟
'آسان اہداف' سے لے کر تمام الزام کسی اور پر لگانے جیسی بے مقصد باتیں ایک طرف، کیا آرمی پبلک اسکول سانحے کے بعد بھی ہم اپنے بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں؟
ٹی وی پر حب الوطنی اور خوشی کے نغمے تیار کیے گئے جس میں یونیفارم میں ملبوس بہادر بچے مارچ کرتے ہوئے دہشتگردوں کو مزید بربریت کا چیلینج دے رہے ہیں؛ نیوز کاسٹرز کا ہلاک بچوں جیسے یونیفارم پہن کر خبریں پڑھنا، ان کو اس طرح سلیوٹ کرنا کہ جیسے وہ جنگجو تھے، نہ کہ اپنی کلاسوں کی طرف دوڑتے اسکول کے بچے۔
پڑھیے:گلشنِ اقبال سے گلشنِ ابدی تک
وہ بچے فوجی نہیں تھے۔ انہیں کسی جنگی میدان میں نہیں بلکہ ان کے کلاس رومز میں قتل کیا گیا تھا۔
امریکی کارٹونسٹ لیزا ڈونیلی نے لاہور میں قتل عام سے منسوب ایک خاکہ بنا کر کتنے ہی پاکستانی دل جیت لیے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد سماجی میڈیا کے ذریعے ان تک پہنچی تاکہ لاہور کو یاد رکھنے اور پاکستانیوں کے درد کا اظہار کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔