گلشنِ اقبال سے گلشنِ ابدی تک
پھول سے نازک بچے جب اسکول سے تھک کر گھر واپس آتے تو آرام کرنے کے بعد ماؤں کو صرف یہ کہہ کر تنگ کرتے کہ ہمیں کھیلنے کے لیے پارک لے کر چلیں۔
جھولوں پر بیٹھے ان مسکراتے پھولوں کو ان کی مائیں دیکھ کر یہی سوچتی ہوں گی کہ پروردگار میرے بچے کی ہمیشہ حفاظت کرنا۔
لیکن کیا کوئی یہ بات جانتا تھا یا سوچ بھی سکتا تھا کہ پارک جانے کی فرمائش کرنے والے بچے اب اپنی زندگی میں پارک جانے سے بھی خوفزدہ رہیں گے؟
27 مارچ 2016 کا سورج لاہور کے لیے اتنا تباہ کن ثابت ہوا کہ مردوں اور عورتوں سمیت بچوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالا۔
تصاویر: اقبال کا گلشن خون میں لت پت
شام کے وقت جو بچے اپنے والدین کے ہمراہ پارک میں جھولے جھولنے آئے تھے، وہ بچے جو دنیا کے باغ میں کھیلتے کھیلتے جنت کے باغ میں پہنچ گئے۔
جو گزر گئے سو گزر گئے، لیکن کیا سوچا ہے ان بچوں کا کیا ہوگا جو اس حملے میں بچ گئے؟ اور اس بچے کا بھی جس کا پورا گھرانہ اس سانحہ میں چل بسا اور اس معصوم کو اکیلا چھوڑ گیا؟
کیا یہ بچے اب کبھی پارک جائیں گے؟ کیا یہ بچے اب کبھی اسکول سے تھک کر گھر واپس آنے کے بعد اپنی والدہ سے فرمائش کریں گے کہ انہیں کسی پارک لے کر جایا جائے؟
کیا یہ بچے اب اپنے والد کی انگلی تھام کر کسی جھولے پر بیٹھنے جا پائیں گے؟
اس جنگ نے نہ صرف ہمارے ملک اور ہماری قوم کو جانی نقصان پہنچایا ہے، بلکہ ہر حملے کے بعد بچ جانے والوں پر ایسے شدید ترین نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو عمر بھر کا روگ بن کر رہ جاتے ہیں۔
آخر کب تک ہمارے ملک میں بچوں کو نشانہ بنایا جائے گا؟ آخر کب تک اس ہی طرح معصوم پھول دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہمارے ملک کو آگے بڑھانے والے ان بچوں کی زندگیاں تباہ کی جائیں گی؟ آخر کب تک مائیں اپنے بچوں کی لاشوں پر آنسو بہائیں گی؟ آخر کب تک ایک باپ اپنے بیٹے کا جنازہ اٹھائے گا؟ آخر کب تک سیاست دان صرف مذمت کا سہارا لیں گے؟ آخر کب تک ہر سانحہ کے بعد ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی جائے گی؟ آخر کب تک ہم ان خبروں کو ٹی وی پر دیکھ صرف افسوس کریں گے اور جند لمحوں بعد چینل تبدیل کرکے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں گے؟
کیا یہ وہی ملک ہے جسے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں لاکھوں لوگوں نے قربانی دے کر حاصل کیا تھا، اس دن کے لیے کہ ہم اپنے بچوں کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اب پارکوں سے بھی دور رکھیں؟
یہ پڑھیں : لاہور پارک دھماکے میں 72 افراد ہلاک
ہم ہر صبح اپنے بچوں کو موت کے منہ میں بھیجنے کے لیے تیار کرتے ہیں اور اگر وہ خیریت سے گھر واپس آجائیں تو سکون کا سانس لیتے ہیں۔
نہ ہی ہمارے اسکول محفوظ ہیں، نہ ہی ہماری یونیورسٹیاں، نہ ہی ہمارے پارک محفوظ ہیں اور نہ ہی ہمارے گھر۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بچوں پر سرمایہ کاری کی جائے اور ان کی حفاظت کی جائے، پر سانحہ پشاور، سانحہ باچا خان یونیورسٹی، سانحہ گلشنِ اقبال پارک، اور ایسے لاتعداد سانحوں میں اس قوم کا مستقبل جیسے برباد ہوا ہے، اس کی مذمت کرنے کے لیے اب الفاظ بھی ختم ہو چکے ہیں۔
خودکش حملہ آور نے ایک دھماکے سے نہ جانے کتنے پھول روند دیے، لیکن جو پیچھے چھوڑ دیا وہ اس ماں کی آہ و بکا تھی، وہ ماں جس نے راتوں کو جاگ کر اپنے بچے کو سلایا ہوگا، وہ ماں جو خود تو بھوکی رہ گئی لیکن اس نے اپنے بچوں کا پیٹ بھردیا، وہ ماں جو اپنے بچوں کو دیکھ دیکھ کر صرف یہ سوچتی کہ یہ بچے اس کی زندگی کا سہارا ہیں، وہ ماں جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کی لاش اٹھائی اور وہ ماں جس نے اپنے مسکراتے پھول کا خون سے آلود کپڑے اٹھائے، وہ ماں جو اب پوری زندگی صرف یہ سوچیں گی کہ کاش میں اپنے بچے کو اس تاریخ پر پارک نہ بھیجتی۔
کاش ہمارے ملک میں مزید ایسی مائیں نہ نظر آئیں جو اپنے آنگن کو اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتے ہوئے دیکھ کر بھی کچھ نہ کر پائیں۔ کاش کہ ہمیں ہوش آجائے، کاش کہ ہمارے ملک کے بچے ایک بار پھر ہر میدان میں سب سے آگے ہوں، کاش ہمارا ملک اس دہشت گردی سے پاک ہوجائے۔
کاش وہ دن جلد آئے!
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
میمونہ نقوی ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔