ہم کسی سے کم نہیں!
"مماّ! مجھے بھی جانا ہے کرکٹ کھیلنے!"میری بیٹی نے اپنے بھائیوں کو باہر گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے جاتے دیکھ کر ضد کی۔ "ارے بیٹا! لڑکیاں یہ لڑکوں والے کھیل نہیں کھیلتیں۔۔۔ آؤ، میں تمہیں گڑیا کا گھر بنا کر دیتی ہوں۔"میری امیّ نے پیار سے میری بیٹی کو پچکارا۔"مگر مجھے بھی بیٹ پکڑ کر چوکاّ لگا نا ہے، پھر سب تالیاں بجائیں گے"۔ اس نے بڑی معصومیت سے کہا اور سب کے ساتھ ساتھ میں نے بھی بات ہنسی میں اڑا دی۔
یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں لیکن آج اپنی پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم کو ٹی 20ورلڈ کپ مین کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے دیکھ کر مجھے اپنی اس ہنسی پر آج بھی افسوس ہوتا ہے کہ بزعمِ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی میں نے کھیل کود میں اس جنسی تفریق کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جو یہ طے کرتی ہے کہ کون سے کھیل لڑکیوں کے کھیلنے کے ہیں اور کون سے لڑکوں کے۔
پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم آج کل کامیابیوں کی جو داستان رقم کر رہی ہے وہ نہ صرف قابلِ ستائش و مبارکباد ہے بلکہ کھیل کے اس میدان میں بحیثیتِ قوم ہماری سربلندی اور فخر کا باعث بھی ہے۔آج پاکستان کو دنیا بھر میں جسِ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کے متنازع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ایک جانب وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک پاکستان ایک پسماندہ ترین، غیر ترقی یافتہ ملک ہے جہاں خواتین کوبنیادی حقوق بھی میسّر نہیں۔
جہاں انہیں "چادر اور چاردیواری"کے نام پر قید کر کے رکھا جاتا ہے، سڑکوں اور بازاروں میں آوازے کسے جاتے ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کر کے مردانہ انا کو تسکین دی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسے مسائل یقیناً موجود ہیں جن کی سنگینی سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا مطلب یہ ہر گر نہیں کہ ہم ان تمام پہلووٗں کو فراموش کر دیں جو پاکستان کو ایک آزاد ، خود مختار اور برابری کے حقوق دینے والی مملکت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
فی الواقع اگر صرف کھیلوں کی ہی مثال لے لی جائے تو پاکستان کی خواتین کئی ایسے کھیلوں میں بین الاقوامی طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں جن پر کماز کم ہمارے مشرقی معاشرے میں "مردانہ کھیلوں"کا ٹھّپہ لگا تھا۔صرف کرکٹ ہی کیوں ہاکی، ٹیبل ٹینس، ٹینس، مارشل آرٹس، سوئمنگ اور کئی انِ ڈور کھیلوں میں بھی ہماری خواتین نے نہ صرف حصّہ لیا ہے بلکہ کئی میڈلز، ٹرافیاں اور اعزازات بھی حاصل کیے ہیں اور اب لیاری میں پہلے خواتین باکسنگ کلب کے قیام کے یہ کہنا خارج از امکان نہ ہو گا کہ بہت جلد ہماری خواتین باکسنگ رنگ میں بھی چیمپئین شپ کا سہرا سجاتی نظر آئیں گی۔
تعلیم کے میدان میں اپنی ذہانت اور بہترین اکیڈمک ریکارڈز کے بعد اب کھیلوں میں بھی پاکستانی لڑکیوں کی بہترین کارکردگی اور آگے بڑھتے یہ قدم یقیناً ایک تابناک مستقبل کی علامت ہیں۔ پاکستان کے بارے میں جن مثبت پہلوؤں کی ہم بات کرتے ہیں اور جنہیں دنیا کے افق پر اجاگر کرنا چاہتے ہیں، یہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے، یہی وہ مثالیں ہیں جو دنیا کو دکھاتی ہیں کہ پاکستان میں ہم جنسی تفریق کے بغیر ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ یہ تعداد ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم سہی لیکن کامیابیوں کے جس عروج کو چھو رہی ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے نہ صرف ماضی میں کئی قابلِ ستائش کام ہوئے ہیں بلکہ حال ہی میں گھریلو زیادتیوں کے خلاف خواتین کو حقوق دینے کے جسِ بلِ کو منظور کیا گیا ہے، وہ بلا شبہ اس امر کا ضامن ہے کہ پاکستان ایک کنزرویٹیو نہیں بلکہ ماڈرن اور منصف سوچ رکھنے والی مملکت ہے، جہاں خواتین کو بھی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کا اتنا ہی حق ہے، جتنا مردوں کو۔ انہیں بھی ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں اور ہنر کو منوانیکی اتنی ہی آزادی حاصل ہے، جتنی مردوں کو۔
ہمارے یہاں بھی خواتین نے اپنی قابلیت، صلاحیت اور ہمت کے بل پر یہ دکھایاہے کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ پھر چاہے وہ خلاء میں جانے والی خاتون کا اعزاز ہو، یا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی کوہ پیما کا، آسکر ایوارڈ کی جیت ہو، یا نوبل انعام کی، ایتھلیٹکس کا میدان ہو، یا کرکٹ کا گراؤنڈ، پاکستانی خواتین نے ہر جگہ اپنا آپ منوایا ہے اور بلاشبہ بحیثیت پاکستانی، مجھے ان سب پر فخر ہے۔
شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔