کھیل

میں کیوں مستعفی ہوں؟

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں خراب پرفارمنس کے باوجود آخر آفریدی، وقار، ملک اور شہریار خان کیوں مستعفی نہیں ہونا چاہتے؟

آفریدی پاکستان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں انتہائی خراب پرفارم کیا ہے لہذا آپ مستعفی ہو جائیں۔

’نہیں۔ میں کیوں مستعفی ہوں؟ میرے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ میں کھیلوں، میرے مداح اور ہندوستانی بھی یہی چاہتے ہیں۔میرا سوتیلا بھائی احمد شہزاد اور لے پالک بھتیجا عمر اکمل بھی مجھے کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرےچیئرمین چاہتے ہیں کہ میں کھیلوں۔ وہ میری حقیقی انسپریشن ہیں۔ اگر وہ 85 سال کی عمر میں عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں تو میں 35 سال کی عمر میں کیوں نہیں؟‘۔

اچھا وقار آپ بطور ہیڈ کوچ اپنے دوسرے دور میں بھی فلاپ رہے ہیں۔ آپ ہی ریٹائر ہو جائیں۔

’نہیں۔ میں کیوں چھوڑوں؟ میرے سفارشی نائب اظہر محمود چاہتے ہیں کہ میں آگے کام کروں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہی چاہتے ہیں، حتی کہ میرا کتا بھی‘۔

’سب سے بڑھ کر یہ میرےچیئرمین چاہتے ہیں کہ میں کام کرتا رہوں۔ میں انہی سے سبق سیکھتاہوں۔ اگر وہ 84 سال کی عمر میں پی سی بی امور سنبھال سکتے ہیں تو پھر میرا کیریئر تو محفوظ ہے‘۔

ہارون بھائی، بطور چیف سلیکٹر آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں آپ کی منتخب کردہ ٹیم بری طرح فلاپ ہوئی، آپ ہی مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں۔

’نہیں۔ میں کیوں گھر جاؤں؟ میرا تو پی سی بی میں سلور جوبلی منانے کا وقت آنے والا ہے۔ اس کے علاوہ میرے ماتحتوں کی خواہش ہے کہ میں چیف سلیکٹر رہوں۔میرے نوکروں کے علاوہ کامران اکمل اور سلمان بٹ بھی ایسی ہی خواہش رکھتے ہیں‘۔

’سب سے بڑھ کر یہ کہ میرے چیئرمین مجھے کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ 83 سال کی عمر میں بھی فٹ ہیں۔ اگر وہ پی سی بی میں ہمیشہ ہمیشہ خوش رہنے والے ہیں توپھر میں بھی بطور چیف سلیکٹر اگلے دس سالوں کیلئے مطمئن ہوں‘۔

شعیب ملک، دوسرے تو سنتے نہیں آپ ہی خیر آباد کہہ دیں۔

’نہیں۔ میں بھی کیوں ریٹائر ہوں؟ میری بیوی ثانیہ، عامر لیاقت اور ساحر لودھی چاہتے ہیں کہ میں کرکٹ کھیلتا رہوں۔میرے سازشی دوست بھی یہی کچھ چاہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر میرے چیئرمین مجھے ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں‘۔

’آپ کو پتہ ہے کہ وہ میرا رول ماڈل ہے۔ ہم خواہ ٹی ٹوئنٹی، ٹیسٹ اور ون ڈے میں ہار جائیں، وہ 82 سال کی عمر میں بھی ہمیں معاف کرنے اور غلطیاں بھول جانے کا فن جانتے ہیں‘۔

’آپ کو شاید پتہ نہیں کہ بولی وڈ فلم گجنی ان کی پسندیدہ ہے۔ اس فلم میں عامر خان نے ڈیمنشیا کے مریض کا کردار ادا کیا ہے، لہذا آپ فکر مت کریں، میں ورلڈ کپ 2019 سے پہلے کہیں نہیں جا رہا‘۔

ارے انتی (انتخاب عالم)، خدارا آپ ہی مستعفی ہو جائیں۔ آپ نے تو اپنی پوری زندگی پاکستان کرکٹ ٹیموں کے ساتھ گزار دی۔ کیا آپ اب تک بیزار نہیں ہوئے؟

’نہیں۔ میں بیزار نہیں ہوا۔ یہ تو میرا پی سی بی میں گولڈن جوبلی سال ہے اور میں اسے بہترین انداز میں منانے کی تیاریاں کر رہا ہوں۔ میرا مالی، ہمسایہ اور کوئی بھی مجھے جاتا دیکھنا نہیں چاہتا‘۔

’بورڈ نے میانی صاحب میں میرے لیے ایک بہترین جگہ بک کرا رکھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں آخری سانس تک مینیجر کا بیج اپنے سینے پر سجائے رکھوں اوریہیں سے سیدھا اپنی آخری آرام گاہ لے جایا جاؤں‘۔

’آخر میں میں اپنے بڑے بھائی شہریار کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے کبھی مجھے بوڑھا یا ریٹائرڈ محسوس نہیں ہونے دیا‘۔

شہریار صاحب آپ نے پاکستان کرکٹ تباہ کر دی۔ اب آپ کے جانے کا وقت آ گیا ہے۔

’نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں بطور پی سی بی چیئرمین اپنی زندگی کا بہترین وقت گزار رہا ہوں۔ اگر سیٹھی بیک وقت صحافی اور سرکاری عہدہ سنبھال کر سب کو بے وقوف بنا سکتے ہیں تو پھر میں تو اس کام میں کہیں بہتر ہوں‘۔

’میں صبح ایک بیان دیتا ہوں اور شام کو اسے رد کر کے صحافیوں کو چکرا دیتا ہوں۔ لڑکے تم ہی مجھے بتاؤ جس نے مجھے اس کرسی پر بٹھایا ہے اگر اسے ہی فرق نہیں پڑتا تو پھر ’سانو کی؟‘‘۔

یہ خبر 26 مارچ، 2016 کے ڈان اخبار سے لی گئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔