نقطہ نظر

اگر سکیورٹی گارڈ ہی خطرہ بن جائے تو؟

نجی کمپنیوں کے سکیورٹی گارڈز بھی ان چیزوں اور لوگوں کی فہرست میں آگئے ہیں جن سے ہمارے بچوں کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔

کچھ سال قبل ہمارے علاقے میں چوری کی وارداتوں کے پیش نظر میرے گھر والوں نے ایک پرائیوٹ کمپنی کا سکیورٹی گارڈ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا جو رات کے وقت گھر کی نگہبانی کرسکے۔

مگر جیسے ہی رات ہوتی تو میری والدہ پرائیوٹ سکیورٹی کمپنی کو فون کر کے شکایات کرنا شروع کر دیتیں کہ یا تو گارڈ سو رہا ہے یا کہیں موجود نہیں یا اس نے اپنے ریڈیو کی آواز اتنی زیادہ بڑھا دی ہے کہ جب کوئی بلا رہا ہو تو اسے سنائی ہی نہیں دیتا۔

ہر شکایت پر گارڈ فوراً تبدیل کر دیا جاتا تھا مگر بدقسمتی سے دوسرا گارڈ بھی پچھلے سے ذرا مختلف نہ ہوتا۔

آخرکار انہی میں سے ایک سکیورٹی گارڈ تھا جس نے ان افراد کو دروازہ کھول کر اندر آنے دیا جو ہمیں گن پوائنٹ پر لوٹنے کے لیے آئے تھے۔ بلاشبہ گارڈ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ افراد کس غرض سے ہمارے گھر میں داخل ہوئے تھے۔

وہ ایک نااہل اور غیر تربیت یافتہ گارڈ تھا جسے معلوم نہیں تھا کہ ایسی صورتحال میں کس طرح نمٹا جاتا ہے۔ بھلے ہی اس کے کندھے پر بندوق لٹک رہی ہو، مگر اس طرح کے کیسز میں زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ انہیں اسے استعمال کرنے کی تربیت نہیں ہوتی۔

جب اس واقعے کی خبر دوسروں تک پہنچی تو عزیز و اقارب نے بھی مختلف سکیورٹی کمپنیوں کے گارڈز کی ناکامیوں کے بارے میں اپنے اپنے تجربات بتائے۔

پڑھیے: امریکی قونصلیٹ کا گارڈ اپنی ہی گولی سے ہلاک

جہاں بڑی تعداد میں ایسے سکیورٹی گارڈز موجود ہیں جو مشکل حالات میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے، وہاں ایسے بھی گارڈز موجود ہیں جو بنا کسی ضرورت اقدام اٹھا بیٹھتے ہیں۔

دونوں ہی صورتیں سنگین صورت حال کو جنم دیتی ہیں۔

خاص طور پر ایسے گارڈ جو ایسی صورتحال میں جہاں کسی کی زندگی یا ملکیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا، وہاں ٹرگر دباتے وقت ایک بار بھی نہیں سوچتے۔

کراچی میں گزشتہ اتوار کی شب قتل کر دیے گئے گیارہ سالہ لڑکے نے اس سکیورٹی گارڈ کے لیے خطرے کی کون سی علامت ظاہر کی تھی کہ گارڈ نے ٹرگر دبا دیا؟

اس بچے کی غلطی صرف یہ تھی کہ وہ 'خوفناک ماسک' پہن کر مسلح گارڈ کی جانب چپکے سے بڑھ رہا تھا۔ گارڈ نے گھبرا کر فائرنگ کر دی اور بچے کو اپنی غلطی کی قیمت جان دے کر چکانی پڑی۔

حالیہ سالوں میں پاکستان میں نجی کمپنیوں کے سکیورٹی گارڈز بھی ان چیزوں اور لوگوں کی فہرست میں آگئے ہیں جن سے ہمارے بچوں کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔

نجی سکیورٹی گارڈز بہت پہلے سے ہی گھریلو تنازعات اور اسکول کے بچوں کی لڑائیوں میں مداخلت کی وجہ سے اخبار کی شہ سرخیوں کی زینت بنتے آرہے تھے۔

بااثر گھرانوں کے ذاتی گارڈز، جنہیں ان کے طاقتور جاگیردار مالکان شہروں میں بھی اکثر اپنے ساتھ لے آتے ہیں، کے تمام اقدامات پر ان کا تحفظ یہ بااثر مالکان کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: عبدالقادر گیلانی کے گارڈز کی فائرنگ سے نوجوان ہلاک

مگر ایسے سکیورٹی کمپنیوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو ایک غریب آدمی کو ملازمت پر رکھتی ہیں اور یونیفارم پہنا کر ہمارے گھروں اور اسکولوں کی حفاظت کے لیے بھیج دیتی ہیں؟

کیا وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں؟

کچھ ہفتے قبل ایک سکیورٹی گارڈ لکی مروت میں اپنی پستول پر کنٹرول کھو بیٹھا اور غلطی سے ٹرگر دبا کر پہلی جماعت کے طالب علم کو گولی مار کر زخمی کر دیا۔

شکر ہے کہ اس کیس میں بچے کی جان بچ گئی۔

ایک تو ویسے ہی مسلح افراد گلیوں اور گھروں میں زیب نہیں دیتے، مگر سوچیں اگر وہ اسکولوں میں ہوں اور وہاں وہ اپنے پستول کا کنٹرول بیٹھیں؟ کسی بھی والدین کے لیے اس زیادہ بھیانک بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔

جب بھی سکیورٹی گارڈ پلے اسکول کا دروازہ کھولتا ہے تو میرا دو سالہ بیٹا بڑی خوشی سے ان سے ہاتھ ملاتا ہے جو جھک کر میرے بیٹے سے ملتا ہے۔ میرا بیٹا چھت پر اپنے ہتھیار کے ساتھ تیار گارڈ کو بھی ہاتھ ہلا کر کافی خوش ہوتا ہے۔

ویڈیو: پیٹرول پمپ پر ڈکیتی کی کوشش گارڈ نے ناکام بنادی

اسکول سے نکلتے وقت وہ انہیں شکریہ کرتا ہے اور بائے بائے کہتے ہوئے باہر نکلتا ہے۔ جب بھی گارڈ جھکتا ہے اور اس کا ہتھیار کندھوں سے سرک کر ہمارے قریب آتا ہے، تو اس وقت میں ڈر جاتی ہوں۔ مگر اسکول کو 'محفوظ' بنانے کے لیے اضافی سکیورٹی ضروری ہے۔

لیکن جب یہی اضافی سکیورٹی اس خطرے میں بدل جائے جس سے آپ خوفزدہ ہیں، تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

منصفانہ طور پر کہوں تو ایسی بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب اسکولوں، مسجدوں، دکانوں اور ریسٹورنٹس کے باہر کھڑے سکیورٹی گارڈز نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ان مقامات کا دفاع کیا اور حملے ناکام بنانے میں کامیاب رہے۔

جہاں بلاشبہ ان کی قربانیاں قابلِ تعریف اور نمایاں ہیں، لیکن وہاں وہ اس حقیقت سے خود کو نہیں بچا سکتے کہ ان میں سے زیادہ تر گارڈز غیر تربیت یافتہ ہیں۔

پاکستان جیسے غیر محفوظ ملک میں معاشرے کو ان گارڈز کی ضرورت مسلسل پڑتی رہے گی کیونکہ دہشتگردی اور جرائم چند دن میں ختم ہوجانے والی چیز نہیں۔

جانیے: جج اپنے ہی گارڈ کی فائرنگ سے ہلاک

تو کیا ان نجی سکیورٹی گارڈز کو ملازمت پر رکھنے والی کمپنیوں کے حوالے سے کوئی قوانین و ضوابط نہیں بنائے جاسکتے؟ اگر آج کل ریسٹورنٹس کو باسی سبزی اور زائد المیعاد کیچپ رکھنے پر بند کروایا جاسکتا ہے تو ہم ایسی کمپنیوں کے حوالے سے بھی ضوابط تیار کیوں نہیں کر سکتے؟

چاہے ان کے ہتھیار ہوں یا ان کی تربیت، ان گارڈز کے ہمارے گھروں اور ہمارے علاقوں میں رویے کے بارے میں کچھ معیارات قائم کیے جانے چاہیئں۔

اگر ہم ان گارڈز کو تعینات کرتے ہیں، تو یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم ان گارڈز کو ملازمت دینے والی کمپنیوں سے ذمہ داری اور تربیت کا مطالبہ بھی کریں۔

اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو غیر تربیت یافتہ افراد یونہی جب بھی کوئی ماسک پہنے بچہ یا پھر کوئی جانور ان کی طرف بڑھے گا تو ان پر بغیر سوچے سمجھے ٹرگر دباتے رہیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

شائمہ سجاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔