قومی اسمبلی: مشرف معاملہ حکومت کیلئے سر درد بن گیا
اسلام آباد: سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف گزشتہ ہفتے علاج کے غرض سے پاکستان چھوڑ چکے ہیں لیکن ان کی بیرون ملک روانگی اب تک حکومت کیلئے سر درد بنی ہوئی ہے۔
پیر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک سیاسی اکھاڑہ بنا رہا۔
وزیر اعظم نواز شریف کی ایوان میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی پی پی اور پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈروں نے انہیں یاد دلایا کہ کس طرح انہوں نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر سابق صدر اور اپنے دشمن کو جانے دیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی نے یاد دلایا کہ جون، 2013 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت آرٹیکل چھ کے تحت مشرف پر مقدمہ چلائے گی۔
اس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے’جنرل کو عدالت تک نہ لے جانے کی مجرمانہ غفلت دکھانے ‘ پر اپوزیشن کو آڑھے ہاتھوں لیا۔
چوہدری نثار نے موقف اختیا رکیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کے پاس سابق صدر کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔
اس سے قبل وزیر خزانہ نے آج تقریباً دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اجلا س میں اپوزیشن کو پی آئی اے آپریشنز بہتر بنانے کے حکومتی منصوبے پر بریفنگ دی۔
پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی نے مشرف کے بیرون ملک جانے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا ’آج کا اجلاس خالصتاً قانون سازی کیلئے بلایا گیا تھا لیکن کیا حکومت ایوان کو بتائے گی کہ آرٹیکل چھ کے ملزم کو کس طرح ملک سےباہر جانے کی اجازت دی گئی؟‘۔
اس پر اسپیکر نے متعدد مرتبہ شاہ محمود قریشی سے خود کو سیشن کے ایجنڈے تک محدود رکھنے کی درخواستیں کیں ، لیکن پی ٹی آئی لیڈر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
خورشید شاہ نے اس موضوع کو وہیں سے شروع کیا جہاں پہلے شاہ محمود قریشی نے چھوڑا تھا۔انہوں نے ن-لیگ کے زخموں پر نمک پاشی کی کوشش کرتے ہوئے یاد دلایا کہ کس طرح سابق آمر نے حکمران پارٹی کو اقتدار سے باہر کیا بلکہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ سے خراب رویہ رکھا۔
ابھی خورشید شاہ نے حکومت پر تنقید شروع ہی کی تھی کہ اذان ہو گئی۔ عموماً اس صورتحال میں مقرر کو تقریر مکمل کرنے کا وقت دیا جاتا ہے،لیکن اسپیکر نے فوراً بیس منٹ کیلئے وقفہ نماز کا اعلان کر دیا۔
وزیر اعظم وقفے کے دوران ایوان سے باہر گئے اور پھر خورشید شاہ کی بقیہ سخت تنقید کے دوران نظر نہیں آئے۔
بظاہر مکمل تیاری کے ساتھ آئے خورشید شاہ نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نے 24 جون، 2013 کو اپنے خطاب میں بغاوت کا مقدمہ چلانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
انہوں نے اُس وقت مختلف وفاقی وزرا کے جنرل مشرف کے خلاف بیانات کا بھی حوالہ دیا۔
اپوزیشن لیڈ ر نے کہا ’آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ پی پی پی کے سابق دور میں جنرل صاحب کئی مرتبہ ملک سے آئے اور گئے اور ہم نے کبھی ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی نہیں کی، لیکن آپ نے تو ایسا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے عزم کو کیا ہوا‘۔
چوہدری نثار نے جواب میں کہا کہ کس نے پی پی پی کو جنرل کے خلاف مقدمے میں فریق بننے سے روکا تھا؟
انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اگلےسیشن میں مشرف کی روانگی کے معاملے پر تفصیل سے ردعمل دیں گے۔
’یہ واضح ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے بعد وفاقی حکومت انہیں نہیں روک سکتی تھی‘۔
اس پر پی پی پی کے سینئر سیاست دان اعتزاز احسن نے کہا سپریم کورٹ نے بال حکومت کے کورٹ میں پھینک دی تھی اور مشرف کو جانے کی اجازت دینا یا روکنا حکومت پر منحصر تھا۔
یہ خبر 22 مارچ، 2016 کے ڈان اخبار سے لی گئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔