معذور جانوروں کا گھر
یونیورسٹی سے پہلے ایک سالہ وقفے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اپنا کچھ وقت پاکستان میں جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے گزارنے کا فیصلہ کیا اور عائشہ چندریگر فاؤنڈیشن (اے سی ایف) میں انٹرن شپ کر لی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس انٹرن شپ نے مجھے بالکل ہی بدل دیا ہے۔
2014 میں قائم ہونے والی اے سی ایف کا وژن پاکستانی معاشرے کے پسماندہ طبقے کو سہارا فراہم کرنا ہے۔ فاؤنڈیشن کی بانی عائشہ چندریگر نے مجھے بتایا کہ فاؤنڈیشن نے ابتدا معاشرے کے سب سے نچلے اور پسے ہوئے طبقے یعنی آوارہ جانوروں سے کی۔
اس وقت اے سی ایف تین اہم منصوبوں پر کام کر رہی ہے جن میں ان کا جانوروں کا شیلٹر، ان کو بانجھ کرنے کا پروگرام اور گدھوں کے لیے کیمپس شامل ہے۔
عائشہ بتاتی ہیں کہ ''ہم ٹرسٹ نہیں بلکہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہیں۔ ہم عطیات پر منحصر ہیں اور ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ بہتر کام کریں، لیکن اب بھی کافی کام کرنا باقی ہے۔''
پڑھیے: جانوروں پر ظلم
اینیمل شیلٹر اے سی ایف تنظیم کا سب سے آسانی سے قابل شناخت حصہ ہے جو کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ڈالمیا روڈ پر واقع ہے۔ اس کی دیوراروں کا سفید اور سرخ رنگ اسے علاقے میں موجود دیگر سرمئی عمارتوں سے بالکل منفرد بنا دیتا ہے۔
اس وقت شیلٹر میں ہر قسم کے 170 جانور موجود ہیں، جن میں دو گھوڑے، پانچ گدھے، ایک گائے، پانچ عقاب اور لاتعداد کتے اور بلیاں شامل ہیں۔
شیلٹر کی شریک مینیجر وجیہہ احمد کہتی ہیں کہ ''یہ شیلٹر برے سلوک کے شکار ان جانوروں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کام کرتا ہے جو چار دیواری سے باہر خود کو زندہ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ـ
وہ بتاتی ہیں کہ کچھ زخمی جانور یہاں عارضی طور پر رہتے ہیں۔ ان کی نگہداشت کرنے کے بعد ان کی نس بندی کی جاتی ہے اور پھر ان علاقوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ دوستانہ رویہ رکھتے ہوں گے۔ باقی جانور یہیں رہتے ہیں۔
وہاں موجود گھوڑوں میں سے ایک خوبصورت کم عمر گھوڑی 'آئیرس' بھی تھی، جو اتنی خوبصورت ہے کہ صرف گردن کے چمکدار بالوں کو ایک بار جھٹکا دے کر ہی جانوروں کا مقابلہء حسن آسانی سے جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بدقسمتی کے ساتھ یہ گھوڑی نابینا ہے اور وہ اکیلی ٹریفک کے رش اور شور میں خود کو زندہ رکھ نہیں پائے گی۔ دوسرے جانوروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔