کپور اینڈ سنز: فواد کا غیرمعیاری انتخاب
ہندوستانی فلمی صنعت میں ایسی فلمیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں، جن کی کہانی اوریجنل ہو، کسی مغربی خیال سے متاثر یا چوری شدہ نہ ہو۔ یہ فلم کپور اینڈ سنز اس لحاظ سے ایک بہتر فلم ثابت ہوئی ہے۔
اس کا سب سے اچھا پہلو کہانی کا اصل اور معیاری ہونا ہے، مگر اس سے بھی کہیں زیادہ مثبت پہلو اس کہانی میں کردارنگاری ہے، جس کی وجہ سے فلم میں آخر تک تجسس برقرار رہا۔
ہلکی پھلکی رومانوی، اور طنز و مزاح سے بھرپور ایک مڈل کلاس خاندان کے گھریلو مسائل کی عکاسی کرتی ہوئی یہ فلم کرداروں کی تخلیق اور ایک دوسرے سے جڑے ہونے کی بنیاد پر مضبوط ثابت ہوئی اور کئی تکنیکی خامیوں کے باوجود فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ابتدائی تین دن تک کی باکس آفس رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کر رہی ہے۔ فلم کو توجہ ملنے کی ایک بڑی وجہ اس فلم کے لیے کرن جوہر کا فلم ساز ہونا بھی ہے۔
فلم کی کہانی شکون بترا اور عائشہ دیوتری ڈھیلون نے لکھی۔ سب جانتے ہیں کہ اس فلم کے ہدایت کار شکون بترا ہیں، لیکن کہانی کا ٹریٹمنٹ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ اس کہانی نویس جوڑی میں کافی ذہنی ہم آہنگی ہے، کیونکہ اس سے پہلے دونوں کی بطور کہانی نویس پہلی فلم اک میں اور تو تھی۔
فلم کی تدوین، کہانی کو فلمانے کے لیے مقام موزوں، میک اپ، لائٹس، گرافکس اور دیگر تمام پہلوؤں سے بھی فلم میں کوئی بڑی خامی نہیں، مگر موجودہ فلم میں کرداروں کا آپس میں مضبوط ربط ہونے کے باوجود کئی تکنیکی غلطیاں ہیں۔ اتنا مضبوط پلاٹ بنانے والے کہانی نویسوں سے ان غلطیوں کی توقع نہ تھی، مگر ان غلطیوں کو مضبوط کہانی اور ہدایت کار کے فلمانے کے انداز نے اپنے اندر چھپا لیا۔
فلم کے ہدایت کار بہت زیادہ تجربہ کار اور منجھے ہوئے نہیں، لیکن اس فلم کی ضرورت ایک ایسا ہی نوجوان اور کم تجربہ کار ہدایت کار تھا، جس کی ذہنی اور تخلیقی سطح نوجوان نسل سے قریب تر ہو، تاکہ وہ کہانی سے انصاف کر سکے، کیونکہ فلم کی کہانی کا انحصار دونوں بھائیوں کی زندگی کے معمولات پر تھا، جنہوں نے ابھی عملی زندگی میں قدم رکھا ہی تھا، لہٰذا ہدایت کار بھی اپنا کام بخوبی نبھانے میں کامیاب رہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ کپور خاندان کا سربراہ ایک ریٹائرڈ فوجی، نوے سال سے زیادہ عمر کا بزرگ، جو مزاج کا رنگیلا تھا، وہ اپنے بیٹے، بہو اور پوتوں کے ساتھ خوش باش زندگی بسر کرتا ہے۔
ان بزرگ کی ایک شدید ترین خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا ایک فیملی فوٹو بنوا سکیں تاکہ ان کے اندر خاندان کے جڑاؤ کی تمام اکائیاں پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں۔ کیونکہ وہ پرانے زمانے کے آدمی ہیں، اس لیے ان روایات کو بہت اہمیت دیتے ہیں، مگرساتھ ساتھ زندہ دل ہونے کی بنیاد پر ان کا طرزِ گفتگو ایسا ہے جس طرح وہ کسی ہم عمر دوست سے مخاطب ہوں۔
ایک زندہ دل دادا کے کردار میں رشی کپور نے اپنی اداکارانہ مہارت سے رنگ بھر دیے۔ اس کردار کو نبھانے کے لیے انہوں نے مسلسل کئی دن دس بارہ گھنٹے میک اپ میں وقت گزارا، جوخاصا تکلیف دہ تھا۔ اس کے علاوہ فلم کے ہدایت کار سے ان کا مزاج بھی نہیں ملتا تھا، اس لیے انہیں فلم میں کام کرتے ہوئے خاصی دقت ہوئی۔ البتہ فواد اور سدھارتھ میں خوب دوستی جم گئی۔ دونوں نے شوٹنگ کے دنوں میں خوب کرکٹ کھیلی اور اچھی یادیں سمیٹیں۔ دیگر اداکاروں نے بھی اپنے حصے کا کام بہت حد تک اچھے سے نبھایا۔
لہٰذا فلم کی کہانی میں دادا کے بیٹے اور بہو کے گھریلو جھگڑے، ان کے دونوں بیٹوں کا اچھے مستقبل کی تلاش میں دیارِ غیر جانا، پھر واپس آکر گھریلو زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرنا، اپنی حد تک ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنے تک کا ربط کہانی نویس جوڑی نے بہت اچھا بنایا۔
اس دوران دونوں بھائیوں کو ایک ہی لڑکی مختلف اوقات میں ملی اور بعد میں اس کا جھکاؤ ایک بھائی کی طرف ہوگیا، جو چھوٹا بھائی یعنی سدھارتھ تھا، مگر حادثاتی طور پر بڑے بھائی یعنی فواد کے ساتھ بھی وہ کچھ جذباتی لمحے بتا چکی تھی۔ اس صورتحال میں تینوں نوجوان فنکاروں، فواد، سدھارتھ اور عالیہ نے اپنے کرداروں سے انصاف کیا۔
فلم کے کمزور پہلوؤں میں کرداروں کے ظاہری حلیے، نوعیت اور بناوٹ کا درست نہ ہونا ہے۔ دونوں بھائی ایک مضافاتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک کچھ عرصہ امریکا جبکہ دوسرا برطانیہ میں گزارا ہوتا ہے، لیکن پوری فلم میں گاؤں میں رہتے ہوئے بھی ان کا طرزِ زندگی شہری ہی رہا، جس کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی مضافاتی علاقے کے باسی ہیں۔
اسی طرح فواد اور رتنا کے کرداروں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا، جیسے ان کی جسمانی حرکات اور چہرے کے تاثرات وہی ہیں، جو فلم خوبصورت میں تھے۔ اس لیے دونوں نے اچھی اداکاری تو کی، مگر اس میں کچھ نیا نہیں، سوائے فلم کے آخری کچھ مناظر میں فواد نے پاکستانی ڈرامے کا اداکار ہونے کا تجربہ رکھتے ہوئے کچھ اداکاری کے جوہر دکھائے۔
دادا کی زندہ دلی کے بہاؤ میں کچھ ایسی گفتگو دکھائی گئی، جو مضافاتی علاقے میں رہنے والا اپنی بہو اور پوتوں سے نہیں کر سکتا۔ فلم کی ٹیگ لائن Since 1921ہے، جس سے مراد اس گھرانے کے سب سے بڑے رکن یعنی دادا کی پیدائش کا سال ہے، اس تاریخ کے لحاظ سے تو یہ بزرگ سو سال کے لگ بھگ ہیں، مگر فلم میں جس طرح وہ بات چیت کر رہے ہیں، ٹیبلٹ فون استعمال کر رہے ہیں، اس سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا، ان کا تعلق پرانی نسل سے ہے۔ سالگرہ کے ایک منظر میں موجود ان کے تمام ہم عمر دوستوں میں بھی یہی بے باکیاں پائی گئیں۔
فلم کا کوئی موسیقار نہیں ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ ادھر ادھر سے مختلف گلوکاروں کے گیت جمع کر کے فلم کا میوزک بنا دیا گیا ہے۔ دیگر بولی وڈ فلموں کی طرح ایک پارٹی سونگ، ایک رومانوی گیت، ایک ہلا گلا اور ایک آدھ غمگین گیت فلم میں ڈال کر موسیقی کے فرائض پورے کر دیے گئے اور جذبات کی تسکین بھی ہوگئی۔ اس لیے فلم میں گیت ہوں، یا پس منظر کی موسیقی، اس کے ہونے کا احساس نہیں ہوا، گیتوں کو فلمانے کے اندازسے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی خاندانی مسائل پر بنی ہوئی فلم ہے، یا جو لڑکے اس میں ناچ گانا کر رہے ہیں، ان کے شدید جذباتی مسائل ہیں۔
پاکستان سے اگر کوئی اداکار بولی وڈ کی فلم میں کام کرتا ہے، تو اس پر بھاری ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کامیابی حاصل کرے، ورنہ مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے اب کچھ عرصے سے ہمارے فنکار بہت سوچ سمجھ کر فلمیں سائن کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود فواد خان نے بھی ایک غلط فیصلہ کیا اور اس فلم کپور اینڈ سنز کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے جس فلم کو ٹھکرایا، اس پر خود بھی انہیں افسوس ہے۔ وہ فلم عامر خان کی پی کے تھی۔
یہ وہی غلطی ہے، جو عمران عباس نے فلم عاشقی ٹو کو ٹھکرا کر کی تھی۔ فواد خان جیسا یہی رول علی ظفر میرے برادر کی دلہن میں عمران خان اور کترینہ کیف کے ساتھ کر چکے ہیں، مگر اس نے ان کی ناکامی میں اضافہ کیا۔
فواد خان کو ہندوستان میں بہت توجہ مل رہی ہے، اس لیے انہیں اس طرح کی عام اور روایتی فلموں کے بجائے اپنے انتخاب میں معیار کو سرفہرست رکھنا ہوگا، ورنہ ان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔