ایماندارانہ بے وفائی
میرے ابو نے زیادہ تر ازدواجی زندگی میں میری امی کو جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس تشدد کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا اور اس کے بارے میں بہت کم ہی سنا۔
تشدد کا پتہ صرف ان کے زخم دیکھ کر چلتا: کٹے ہونٹ، سوجے گال، پھٹے کپڑے، ٹوٹا دانت ہوتا۔ یہاں تک کہ ٹوٹا ہوا جبڑا بھی۔
تشدد کے بعد امی کا بگڑا ہوا سہما سہما چہرہ یوں محسوس ہوتا جیسے مدد کا طلبگار ہو۔
ابو کہتے تھے کہ ''تمہاری امی سے زیادہ خوبصورت عورت میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔'' وہ ہمیشہ امی کے چہرے کو ہی نشانہ بناتے تھے۔
میں نے اپنی 10 ویں سالگرہ کے بعد ان پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ آخری بار جب انہوں نے امی پر تشدد کیا تھا تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے چیخ اٹھی تھیں۔
وہ چیخ کچھ الگ تھی۔ اس میں ایک بے صبری، ایک مایوسی بھری تھی۔ ایسا لگا کہ اس کے بعد اب وہ کبھی نہیں چیخیں گیں۔
میں نے لات مار کر کمرے کا دروازہ کھولا اور اپنی نیم برہنہ والدہ کو اس شخص سے بچایا جسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ وہ اپنی بیوی کا خوبصورت چہرہ تقریباً ادھیڑ چکا ہے۔
وہ کافی دنوں تک خاموش رہیں۔ انہوں نے ہسپتال جانے سے بھی انکار کردیا تھا۔ وہ میری بہن کے کمرے میں سوتیں۔ وہ ایک مشین کی مانند ہوگئیں جو صفائی کرتی، کھانا بناتی اور پھر سو جاتی تھی۔ مجھے ہی ان کی اور اپنے بہن بھائی کی ماں کا کردار نبھانا پڑا تھا۔
ابو کے تشدد کا سلسلہ تھما نہیں تھا، پر اس کا طریقہ مختلف ہوگیا تھا۔
اس حادثے کے ایک سال بعد چیزیں 'معمول' پر آنا شروع ہوگئیں۔ ایک دن ابو نے سب گھر والوں کو 'خاندانی گفتگو' کے لیے ایک ساتھ بٹھایا، مگر ہمیں معلوم تھا کہ ہر خاندانی گفتگو صرف انہی کے بارے میں ہوا کرتی تھی۔
تھوڑی دیر میں پتہ چلا کہ یہ گفتگو کھلے رشتوں کے بارے میں تھی۔ وہ ہماری امی کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ''میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی تو میرے ذہن میں کسی کا نام موجود نہیں، مگر مجھے دوسری بیوی چاہیے۔''
ایماندارانہ بے وفائی
اس بات نے ہمارے دل توڑ دیے۔ بچوں میں سب سے بڑا میں تھا۔ میری کوئی ملازمت نہیں تھی، کیونکہ میں نے حال ہی میں یونیورسٹی ختم کی تھی۔
ابو پر میرا انحصار اب بھی تھا اور ساتھ ساتھ میں اپنے لیے اچھی ملازمت کے لیے کوشاں تھا، اور حتیٰ الامکان گھریلو معاملات سے دور رہنے کی کوشش کرتا۔ میں نے خود سے عہد کرلیا تھا کہ یہاں سے فرار حاصل کر کے اپنی ایک الگ زندگی گزاروں گا۔
میرے بہن بھائی بے سہارا اور ہارا ہوا محسوس کر رہے تھے۔ وہ دونوں کالج کے آخری سال میں پڑھ رہے تھے اور تمام امیدیں پہلے ہی ہار چکے تھے۔
لیکن اس بات سے سب سے زیادہ تکلیف امی کو ہوئی تھی۔ انہوں نے ابو کو خوش رکھنے کے لیے سالہا سال ہر چیز کو اپنے خون اور پسینے کے آخری قطرے اور اپنے آخری آنسو بہانے تک سہا تھا۔
مگر وہ جانتی تھیں کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ان کی تمام تکالیف کو قالین کے نیچے گرد کی طرح چھپا دیا گیا تھا۔
یہ ان کی زندگی اور وجود کا اتنا گہرا سوال بن گیا تھا جس کی گہرائی کا اندازہ میں اب بھی نہیں لگا سکتا۔
پھر انہوں نے اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہتیں ''اسلام میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔''
انہوں نے مذہب کو اپنے دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس بات پر زور دیتیں کہ وہ اس حق کے استعمال کا اختیار رکھتے ہیں۔ میں نے انہیں بٹھایا اور انہیں اپنے نکتہء نظر سے سمجھانے کی کوشش کی۔
''امی خدا آپ کے لیے ایسا کبھی نہیں چاہ سکتا۔ اگر آپ انہیں اپنی رضامندی دیتی ہیں تو آپ انہیں بے وفائی کرنے دے رہی ہیں۔''
''مگر یہ بے وفائی نہیں ہے۔ وہ خفیہ طور پر تو کچھ ایسا نہیں کر رہے۔''
''پر امی اگر وہ آپ سے پیار کرتے تو وہ آپ سے کسی عام دستاویز پر دستخط کرنے کی طرح آپ سے دوسری شادی کی رضامندی نہیں پوچھتے۔ کیا آپ واقعی ایسا چاہتی ہیں؟ کیا آپ کا دل اس بات کو تسلیم کرتا ہے؟''
''نہیں، مگر یہ ان کا حق ہے۔''
''میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ان کا حق ہے یا نہیں۔ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ انہوں نے آپ کو کبھی اتنا بھی پیار کیا ہے جو انہیں آپ کی رضامندی کی پرواہ ہے؟ کیا کبھی انہوں نے آپ سے دوسری شادی کے بارے میں بات کی؟ کیا کبھی انہوں نے اس معاملے پر آپ کے جذبات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟ کیا وہ یہ نہیں دیکھ سکتے ہیں کہ آپ اس بات پر کتنی ناخوش ہیں؟''
''مگر، انہوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے۔''
''کیونکہ امی یہ قانونی معاملہ ہے۔ اگر آپ ہاں کہتی ہیں تو وہ اسے آپ کی قانونی رضامندی کے طور پر قبول کریں گے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے آپ کو شدید تکلیف ہوگی۔ انہیں آپ کی خوشیوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں۔ انہیں آپ کی خوشی سے زیادہ اپنی خوشیوں کی پرواہ ہے۔"
وہ آپ سے صرف رسمی طور پر پوچھ رہے ہیں۔ وہ آپ کو صرف بتانے کے لیے بتا رہے ہیں۔ یہ محبت تو نہیں ہو سکتی۔ کیا آپ کو یہ نظر نہیں آ رہا؟
اور یہ میرے والدین کی شادی ٹوٹنے کی شروعات تھی۔ پانچ سال اور ابو کے دو افیئرز کے بعد بالآخر امی اٹھ کھڑی ہوئیں اور یوں ان کی شادی تمام ہوئی۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب ابو نے دوسری عورت سے شادی کرنے کی بات کہی تھی، وہ تب سے ہی امی کو دھوکہ دے رہے تھے۔
ابو صرف امی کے مذہب پر ایمان کا فائدہ اٹھا رہے تھے جس پر ان کا خود ایمان کبھی نہیں تھا مگر میں یہاں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا کہ ابو نے کس طرح مذہب کا استعمال کر کے میری امی کا استحصال کیا۔
بلکہ میں اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ کیوں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابو نے امی کو دھوکہ دیا، کیونکہ دھوکے کا لینا دینا سچائی یا ایمانداری سے نہیں اور ایسی کسی چیز سے بھی نہیں جو ایک مضبوط تعلق کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
اس کا تعلق صرف طاقت اور اختیار سے ہے۔
جب تک کہ آپ کے باہمی تعلقات میں اطمینان کا فرق موجود ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی آپ کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اور جب تک کہ دو افراد کی خوشی میں عدم توازن موجود ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایک شخص فائدہ اٹھا رہا ہے۔
کیونکہ آخر کیوں کوئی خوشی سے اپنے لیے ناانصافی قبول کرے گا؟
کہا جاتا ہے کہ محبت شرائط سے بالاتر ہوتا ہے اور ہمیں اس کے بدلے میں کسی چیز کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے نہیں لگتا کہ محبت کے معنیٰ اتنے سادہ ہیں۔
میرے خیال میں یہ صرف ایک جذباتی طور پر پیچیدہ، کثیر السطحی اور سمجھ سے بالاتر قسم کی چاہت ہے جو آپ کسی دوسرے کے لیے محسوس کرتے ہیں۔
ڈکشنری کے مطابق پیار چاہت کا ایک شدید احساس ہے۔ مگر مجھے یہ چاہت اپنے کیمرا کے لیے بھی محسوس ہوتی ہے، جسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میرے خیال سے یہ شفقت ہے جو شرائط سے بالاتر ہوتی ہے، نہ کہ محبت۔ کیونکہ اگر یہ مشروط ہے تو یہ شفقت نہیں ہے۔
میں آپ سے نیک دلی کے ساتھ بے انتہا شفقت اور اخلاص کا مظاہرہ کروں مگر اس کے بدلے میں پھر آپ سے کچھ چاہوں، تو یہ اخلاص نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کو استعمال کر رہا ہوں۔
محبت بجا طور پر شفقت اور اخلاص پر مشتمل ہے اور محبت میں لوگ اکثر احسانوں کو گنا نہیں کرتے۔ پر بھلے ہی آپ زندگی کے ہر موڑ پر اپنے شریکِ حیات کے لیے ان سے زیادہ بہتر بننے کی کوشش نہیں کر رہے، تو پھر بھی آپ کا رشتہ قائم رہ سکتا ہے۔ بس اس میں شفقت اور اخلاص کی کمی ہے۔
پر اگر آپ اپنے شریکِ حیات پر ایسی باتیں برداشت کرنے کے لیے زور ڈالیں جس سے وہ خوش نہیں، مگر جس سے آپ کی خوشی پوری ہوتی ہے، تو یہ شفقت اور اخلاص کی مکمل عدم موجودگی ہے۔
اور یہ ایسی صورتحال میں کرنا جہاں قانون، عدم تحفظ یا ایسی کوئی اور چیز آپ کے شریک حیات کے لیے اس بارے میں اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہو، تو یہی چیز کسی کا فائدہ اٹھانا کہلاتی ہے۔
یہ غیر قانونی طاقت کا استعمال ہے، یہ رضامندی کی نرم خلاف ورزی ہے، اور اس کا کرب ریپ سے ہونے والے جذباتی کرب کے برابر ہی ہوتا ہے۔
میری امی لاچار تھیں۔ وہ نا نہیں کہہ پائیں۔
میری امی کی شادی ایک خودپرست اور باہمی طور پر منحصر شخص سے کروا دی گئی تھی۔ ابو کے رویوں کو درست قرار دینے کے لیے وہ خود کو ملزم ٹھہراتیں۔ انہوں نے تمام باتوں پر اپنا نکتہء نظر بدلنے کی کوشش کی تاکہ کسی طرح بس ابو کا رویہ جائز قرار دلوائیں۔ وہ ان کے ظلم کا شکار تھیں اور ابو ان کے مجازی خدا تھے۔
کسی خود پرست شخص کے ساتھ رہنا، کسی خود پرست شخص پر باہمی طور پر منحصر ہونا آسان کام نہیں ہے۔ ایک خود پرست سمجھتا ہے کہ وہ کچھ بھی غلط نہیں کر سکتا اور ان پر باہمی طور پر منحصر لوگ ان کی ہر چیز اپنا لیں گے۔
خوشیاں سودے بازی بن جاتی ہیں، اور جس کسی کے پاس یہ چابی ہو، وہی مالک ہوتا ہے۔
وہ آپ کے اخلاص کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسے ہمیشہ اور ہر قیمت پر خوش رکھا جانا چاہیے۔ انعام کو سمجھنے کا آپ کا اندرونی نظام مکمل طور پر مفلوج ہوجاتا ہے، اور آپ ایک خفیف سی مسکراہٹ اور ایک ذو معنی شفیق لفظ کے بدلے بھی اپنا سب کچھ اسے سونپ دیتے ہیں۔
ابو کی خود پسندی کی انتہا تھی کہ انہوں نے امی کے ٹوٹے ہوئے جبڑے کو پر بھی معافی نہیں مانگی۔ ان کے سامنے ہار مان جانا میری امی کی غلطی نہیں تھی۔
ان کو اکثر اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا کہ، ''تم چلی کیوں نہیں جاتیں؟''
کبھی کبھی چلے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ امی پر ان کا زبردست اختیار تھا جس کا استعمال وہ ان کی آزادی کو اتنے غیر محسوس انداز سے گرفت میں رکھنے کے لیے کرتے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اور امی کو یہ بات سمجھنے میں 30 سال لگ گئے۔
— لکھاری کا نام شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے۔
باہمی طور پر منحصر ہونے (codependency) اور بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر کے بارے میں پڑھیں۔