نقطہ نظر

اگر دھونی بھی آفریدی جیسا بیان دیں تو؟

شاید آفریدی، جو اپنے کریئر کے تقریباً اختتام پر ہیں، نے سچ بولا ہو؟ اور اگر سچ ہی ہے، تو یہ حیران کن کیوں ہے؟

کیا یہ گوگلی تھی یا آفریدی کے اپنے بیٹ نے اپنی وکٹ گرا دی؟

"ہمیں ہندوستان میں پاکستان سے بھی زیادہ پیار ملتا ہے"، یہ جملہ ڈپلومیٹک تھا یا نہیں، میں نہیں جانتی۔

ہندوستانی شائقین حیران و پریشان یہ سوچ رہے تھے کہ کیا یہ وہی آفریدی ہیں جنہوں نے ایک بار انہیں بڑے دل والا نہ ہونے کا طعنہ دیا تھا؟

جاوید میانداد چلا اٹھے اور آفریدی کو شرم دلائی، شاید وہ آفریدی کو عدنان سمیع کی طرح ملک کو خیرباد کہہ دینے کا مشورہ دیتے دیتے رک گئے۔ پر ہوسکتا ہے کہ شاید میانداد کا تیز ذہن بھی آفریدی کی بات سمجھنے میں ناکام رہ گیا ہوگا۔

دوسری جانب ہندوستان کے سابق کپتان سنیل گواسکر سمجھتے ہیں کہ آفریدی نے 19 مارچ کو بڑے معرکے سے قبل برِصغیر کے ہسٹیریائی کرکٹ شائقین کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے زبردست شاٹ کھیلا ہے۔

سچ کہوں تو میں نہیں سمجھتی کہ پاکستان اور ہندوستان کے میچز میں شائقین کے جذبات دشمنی بھرے ہوتے ہیں۔ نہیں۔ درحقیقت شائقین میں انا، فخر، اور تفریح کے جذبات ہوتے ہیں جبکہ حب الوطنی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔

میں ورلڈ کپ میں انڈیا پاکستان میچ کے دوران چلا چلا کر اپنی آواز گنوا بیٹھی تھی، مگر یہ پاکستان کے ہارنے کے لیے نہیں بلکہ انڈیا کے جیتنے کے لیے تھا۔

مگر شائقین سے کسی اور چیز کی توقع کرنا، خاص طور پر ورلڈ کپ میں، غیر حقیقی ہے۔ اگر یہ میچ پاکستان میں ہو، تو وہاں بھی شائقین اپنی ٹیموں پر اتنا ہی دباؤ ڈالیں گے جتنا کہ ہم یہاں ہندوستان میں ڈالتے ہیں۔

اپنے سب سے بڑے حریف کو ان کے ہوم گراؤنڈ میں شکست دینے سے زیادہ ہیجان انگیز کوئی چیز نہیں۔

تو جب شاہد آفریدی نے اپنا حالیہ متنازع بیان دیا، تو ہندوستانیوں نے ٹوئٹر کے ذریعے اس پر بھرپور ردِ عمل دیا۔ جیسا کہ rameshsrivats@ نامی اس ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ شاید شاہد آفریدی کو لگتا ہے کہ شاہد نام کی تمام بولی وڈ فلمیں انہی کے لیے ہیں۔

مگر کئی ہندوستانی شائقین نے ان کی پذیرائی بھی کی۔

SujBharath@ نے ٹوئیٹ کی کہ “میں ایک ہندوستانی ہوں، اور ہاں میں آفریدی کا مداح ہوں۔”

عام جذبات کے برعکس آفریدی کو پاکستان میں حمایت بھی ملی۔

NamkeenJalebi@ نے کہا کہ “ہم کہتے ہیں کہ ہندوستان میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ ہم نے خود آفریدی کے ساتھ ان کے بیان کے بعد کیا کیا ہے؟”

تھوڑی بہت عقلیت پسندی بھی دکھائی دی، جس سے دونوں طرف کے جذباتی مداح اکثر کام نہیں لیتے۔

AhmedDrafts@: “پیارے پاکستانی شائقین، جب آفریدی کہتے ہیں کہ انہیں ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ پیار ملا ہے، تو ہمیں انہیں نفرت سے زیادہ پیار دے کر انہیں غلط ثابت کر دینا چاہیے۔”

کئی نمایاں چہروں نے اپنی نسل کے آخری اسٹار کھلاڑی کی حمایت میں قدم بڑھایا ہے۔ کوچ وقار یونس کہتے ہیں کہ انہیں ان کے بیان میں کچھ بھی متنازع نہیں لگا۔

اداکار فواد خان کہتے ہیں کہ کس طرح آفریدی کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، اور رمیز راجہ صحیح کہتے ہیں کہ "کرکٹ، کرکٹرز اور کرکٹ شائقین سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں۔"

اگر آفریدی نے ہندوستانی شائقین کی تعریف کی ہے، تو کوہلی نے بھی تو عامر کی تعریف کی تھی۔

اپنی جگہ ہندوستانی شائقین نے شاید یہ نہیں سوچا کہ اگر دھونی یا کوہلی نے ایسا بیان دیا ہوتا، تو پھر ان کا ردِ عمل کیا ہوتا۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ دونوں ٹیموں کے کتنے کھلاڑی آپس میں دوست ہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ پرانے اچھے وقتوں میں کئی کھلاڑی دوست ہوا کرتے تھے۔ سورَو گنگولی نے بھی بتایا تھا کہ ان کی ٹیم کی دورہء پاکستان کے دوران کتنی زبردست خاطر تواضع کی گئی تھی۔

تو جب پاکستانی کھلاڑی ہندوستان میں ہیں، تو ہم کیوں ان کی سکیورٹی کا خیال نہیں رکھیں گے؟

سیاست اور کھیل بسا اوقات ساتھ نہں چلتے، اور ان دونوں کو علیحدہ رکھنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ کرکٹ کو ہمیشہ سیاسی ماحول کی گرمی کا نشانہ بننا پڑے گا، مگر تعلقات چاہے کتنے ہی پیچیدہ کیوں نہ محسوس ہوں، یہ سرحد کے دونوں اطراف موجود عام آدمی کے تصور سے کہیں زیادہ سادہ ہیں۔

شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی طرح ہم عام لوگ بھی تیسرے ملک جا کر ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے ہیں، اور ایک دوسرے سے میزبانی میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ان تیسرے ممالک میں ہم لوگ ہمیشہ یہ جاننے کے لیے بیتاب رہتے ہیں کہ پنجابی بولنے والا بندہ امرتسر سے ہے یا لاہور سے۔

شاید آفریدی، جو اپنے کریئر کے تقریباً اختتام پر ہیں، نے سچ بولا ہو؟ اور اگر سچ ہی ہے، تو یہ حیران کن کیوں ہے؟

ہندوستان کے سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کے اپنے تاریخی بس دورے کے موقع پر کہا تھا کہ آپ اپنے دوست بدل سکتے ہیں، مگر پڑوسی نہیں، اور پاکستان اور ہندوستان کے بارے میں یہی بات سچ ہے۔

دونوں ہی اطراف کے لوگوں کے لیے پتلے جلانا آسان ہے، مگر یہ سوچنا مشکل ہے کہ ہم آپس میں دوست بھی بن سکتے ہیں۔

جیوتسنا موہن بھارگوا

جیوتسنا موہن بھارگوا سابق صحافی ہیں جو اب اپنا مکمل وقت بلاگنگ اور بچوں کی پرورش پر صرف کرتی ہیں۔

وہ سرحد کے دوسری طرف رہتی ہیں اور ٹوئٹر پر jyotsnamohan@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔