جی ایم سید اور ضیاء الحق کی 'سیاسی' ملاقاتیں
کراچی کی حیدر منزل نہ صرف سائیں جی ایم سیّد کی سیاسی و سماجی زندگی کا آئینہ دار ہے بلکہ اس کے در و دیوار ایک سیاسی تاریخ کا عملی نمونہ بھی ہیں۔ حیدر منزل وہ مقام ہے جہاں 1934 میں سندھ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس پارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری کے پڑنانا سر شاہ نواز بھٹو تھے۔
1941 میں جب سائیں جی ایم سیّد اور اللہ بخش سومرو کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہوئے تو اس کے حل کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے حیدر منزل کا دورہ کیا اور سیّد کو اللہ بخش سومرو کی حمایت پر قائل کر لیا جس کے نتیجے میں اللہ بخش سومرو دوسری بار سندھ کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔
سید 1940 میں جب مسلم لیگ سندھ کے صدر بنے تو محمد علی جناح ان سے ملاقات کے لیے حیدر منزل آئے۔ عوامی لیگ کے سربراہ اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان نے بھی 1969 میں حیدر منزل کا دورہ کیا۔
حیدر منزل میں جو بڑے بڑے سیاسی اکابرین جی ایم سیّد سے ملاقات کے لیے آتے تھے، اُن میں خان عبدالغفار خان (باچا خان)، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، حیدر بخش جتوئی، سندھ اسمبلی کے پہلے اسپیکر میراں محمد شاہ، سر شاہ نواز بھٹو، شاہ مردان شاہ پیر پگارا، بیگم نسیم ولی خان، سابق وزیراعلیٰ جام صادق علی اور دیگر شامل ہیں۔
ان سب کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین اور مہاجر قومی موومنٹ کے قائد آفاق احمد بھی حیدر منزل کا دورہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ حیدر منزل 1974 سے قبل اور بعد سندھ میں مختلف تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ ان تحریکوں میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، کراچی کی مرکز سے واپسی اور ون یونٹ کے خاتمے کی تحریک نمایاں ہے۔ اس وقت حیدر منزل میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کا مرکزی دفتر قائم ہے اور یہاں سے سیاسی سرگرمیاں تاحال جاری ہیں۔
سائیں جی ایم سیّد کا نام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے وہ سیاسی افکار تھے جن کی بناء پر انہیں ملک دشمن اور غدار قرار دیا گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ نظر بندی میں بسر کیا۔ وہ پاکستان کے واحد سیاست دان تھے جن کا اصرار تھا کہ ان پر غداری کا جو مقدمہ قائم کیا گیا تھا، اس کی سماعت مکمل کرکے انہیں سزا سنائی جائے یا ان کے مؤقف کو سچ تسلیم کیا جائے۔
سائیں جی ایم سیّد کی سیاست کا آغاز یوں تو ضلع دادو میں ان کے آبائی گاؤں 'سن' سے ہوتا ہے لیکن بعد ازاں انہوں نے تقسیمِ ہند سے قبل اور اس کے فوراً بعد کراچی کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کراچی میں 1933میں بابائے کراچی جمشید نسروانجی کی خواہش پر موجودہ نشتر پارک (سابقہ پٹیل پارک) کے علاقے میں حیدر منزل تعمیر کروائی۔
حیدر منزل مختلف سیاسی تحریکوں میں کا مرکز رہا۔ حیدر منزل کا دورہ کرنے والوں میں قائدِ اعظم محمد علی جناح صاحب بھی شامل تھے۔ حیدر منزل کا نام سائیں جی ایم سید نے اپنے پردادا سیّد حیدر شاہ سنائی کے نام پر رکھا۔ سیّد حیدر شاہ کو سندھ کی سیاست میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
حیدر شاہ نے سندھ میں ارغون دورِ حکومت سے قبل مہدی جونپوری، جس نے امام مہدی ہونے کا اعلان کیا تھا، کی کشتیاں سن کے قریب دریائے سندھ میں ڈبوئی تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حیدر شاہ سندھ کے ایک بڑے عالم مخدوم بلاول سے بہت متاثر تھے جنہوں نے اُس وقت مہدی جونپوری کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔