دریا کا درد کون سمجھے؟
خشک دریا پر پلنے والے ماہی گیروں کی پرنم زندگی
انگریزی ادب کے مشہور ناول نگار جوزف کونریڈ نے اپنے ناول "ہارٹ آف ڈارکنیس" میں کانگو ندی کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "اس سانپ نے مجھے موہ لیا"۔ دنیا کے تمام دریا سانپ کی طرح لہراتے اور بل کھاتے پانی کے ایسے بہاؤ ہیں، جو زندگی کی شہہ رگ ہیں۔ یہ دنیا کے کروڑوں لوگوں اور دیگر آبی و خشکی کے جانداروں کو زندگی بخشتے ہیں۔
دنیا کی کون سی ایسی تہذیب ہے جس نے دریا کنارے جنم نہ لیا ہو۔ عراق میں فرات اور دجلہ دریاؤں نے بابلی تہذیب کو جنم دیا۔ دریائے نیل اپنی آغوش میں مصری تہذیب کو لوری سناتا رہا جبکہ دریائے سندھ نے سندھ کے تہذیبی ورثے کی پرورش کی۔
اگر دریا نہ ہوتے تو شاید ہماری دھرتی کی مانگ کسی بیوہ کی مانند اجڑی ہوئی ہوتی۔ قدیم زمانے میں انسان نے اپنا رشتہ دریاؤں سے کافی مضبوط اور شاندار رکھا کیونکہ یہ دریا ہی تھے، جن کا پانی ان کے لیے امرت تھا۔ ان دریاؤں کے پوجا کی جاتی تھیں، ندیوں کو ماں کا درجہ دیا جاتا تھا، انسان کی انسیت ان سے مذہبی بھی تھی اور سماجی بھی تھی۔ انہی دریاؤں سے کئی قصے کہانیاں منسوب ہیں، شاعروں نے اشعار لکھے اور ماؤں نے کبھی انہی دریاؤں کا ذکر بچوں کو لوریاں سنانے میں بھی کیا ہے۔
دریاؤں کا درد صرف وہ جانتے ہیں، جنہوں نے ان کو خشک ہوتے دیکھا ہو۔ دریا آنکھوں کو تب ہی اچھے لگتے ہیں جب وہ بہتے رہیں، دریائے سندھ جس کا ذکر لوگ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں، اس کی حالت کو جب کوئی ماہی گیر بیان کرتا ہے تو اس کی آنکھیں ہی نم ہو جاتی ہیں۔ اب دریا کنارے اڑتی ریت کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی صحرا کا علاقہ ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اسی دریا کا کنارہ ہے جو صدیوں سے بہتا چلا آ رہا ہے۔