نقطہ نظر

پیر علی محمد راشدی کے 'شاہی مشورے'

جمہوری حکمران ہو یا آمر، پیر علی محمد راشدی سب کے قریب رہنے کا ہنر جانتے تھے۔

گو کہ پاکستان کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے اور صرف 68 برسوں پر محیط ہے، اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں دو لفظوں سے خصوصاً آشنائی ہوتی ہے: سیاست اور سازش۔

جو لوگ سیاست کرتے تھے، وہ اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی کارروائی کو سازش قرار دیتے تھے اور جن لوگوں کو سازش کا موردِ الزام ٹھہراتے تھے، ان کے بارے میں دعویٰ یہ کرتے تھے کہ سیاست دانوں کی بددیانتیوں، بداعمالیوں، اقرباء پروریوں اور ذاتی پسند و ناپسند کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو پھر سیاست دانوں کو دیس نکالا دیا جاتا ہے۔

اسی حوالے سے ایک ایسا کردار بھی ہے جس نے پاکستانی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا اور سیاسی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ اس بلاگ میں ہماری کوشش ہوگی کہ تاریخ دان انہیں کس حوالے سے یاد کرتے ہیں، اور یہ بھی کہ سیاست اور سازش کو مؤرخین کی زبانی بیان کیا جاسکے۔

پیر علی محمد راشدی سندھ کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جو ہر دور میں انمول رہے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی اصولی سیاست نہیں بلکہ تقسیمِ ہند سے قبل اور اس کے بعد انگریزوں سمیت مسلمان حکمرانوں، خواہ وہ آمر ہوں یا جمہوریت پسند، کو دیے جانے والے ایسے مشورے تھے جن کے ذریعے وہ اپنے اقتدار کو طول دے سکتے تھے۔

تقسیمِ ہند سے قبل پیر پگارا کے والد سورھیہ بادشاہ (سید صبغت اللہ شاہ راشدی) کو انگریزوں سے سزائے موت دلوانے میں بھی انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ انگریز سے اس وفاداری کا مقصد ان سے محبت نہیں تھی، بلکہ ان کی نظریں پیر پگارا کی گدی پر تھیں۔

پیر پگارا کے پرمزاح لہجے میں سیاسی انکشافات پر مبنی کتاب ”باتیں پیر پگارا کی“ جسے معروف صحافی اور اخباری مالکان الیاس شاکر اور مختار عاقل نے مرتب کر کے جنوری 1992ء میں شائع کیا، میں شامل ایک انٹرویو میں شاہ مردان شاہ راشدی (پیر صاحب پگارا) نے اپنے والد سیّد صبغت اللہ شاہ راشدی (سورھیہ بادشاہ) کی سزائے موت میں علی محمد راشدی کے کردار کو یوں بیان کیا ہے:

س: وہ کون صاحب تھے جنہیں انگریزوں نے اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا؟

ج: کیا اس کا نام بتانا ضروری ہے؟ اتنا کافی نہیں کہ وہ صاحب اور ان کے آقا اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

س: تاریخ کے ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے ان کا نام اور دیگر متعلقہ واقعات ریکارڈ پر لانا ضروری ہیں، جبکہ آپ خود بھی اس سے پیشتر تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔

ج: تو لیجیے — وہ پیر علی محمد راشدی تھے جو چوتھی پشت میں ہمارے خاندان میں آ ملتے ہیں۔ انگریز نے پیر صاحب شہید کے خلاف مقدمے میں اِن سے بہت کام لیا تھا۔ انہیں انگلش سرکار نے سرکاری گواہوں کے بیانات تیار کرنے اور گواہوں کو مقدمے کے لیے train (تربیت) کرنے پر لگایا تھا۔

"پیر علی محمد راشدی گواہوں کے بیانات پہلے خود سنتے، پھر فائنل پرفارمنس کے لیے عدالت بھیج دیتے۔ ہمارے والد صاحب کے وکیل نے ہمیں ان تمام واقعات سے آگاہ کیا کہ کیسے پیر علی محمد راشدی نے انگریزوں کی منشا کے مطابق گواہیاں بھگتائیں۔ انگریز اس خدمت کا صلے میں انہیں پیر پگارا کی گدی بخش دینا چاہتا تھا اور علی محمد راشدی کی بھی یہی خواہش تھی، لیکن انہیں اور ان کے آقاؤں کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ ایسا کیا گیا تو انہیں پھر ایک نئے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح انہیں اس کی ہمت نہ ہوئی۔"

پیر صبغت اللہ شاہ راشدی اور علی محمد راشدی کا خاندان ایک ہی تھا۔ صبغت اللہ شاہ راشدی کو پھانسی دے کر نامعلوم مقام پر دفن کردیا گیا تھا اور ان کے دونوں بیٹوں یعنی بڑے بیٹے شاہ مردان شاہ اور چھوٹے بیٹے سیّد نادر شاہ کو انگریز سرکار نے پہلے علی گڑھ اور پھر برطانیہ منتقل کردیا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے برطانیہ میں شاہ مردان شاہ سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ حکومتِ پاکستان انگریز سرکار کی جانب سے ان کی معزول گدی بحال کرے گی— لیکن ایسا 1949ء میں نہیں بلکہ 1952ء میں ہوا۔ جب پیرپگارا شاہ مردان شاہ سے ایک انٹرویو میں اِس کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

"ہوسکتا ہے کہ ہمارے وہی مہربان جو پیر صاحب شہید (سیّد صبغت اللہ) کے زمانے میں انگریزوں کے دستِ راست اور معاونِ خصوصی تھے اور آج مسٹر بھٹو کے خصوصی مشیر ہیں، ہماری وطن آمد سے پریشان ہوں اور ان دنوں ایوانِ اقتدار میں جو رسائی حاصل تھی، اسے خود اپنی کھال بچانے کے لیے استعمال کر رہے ہوں۔"

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیر علی محمد راشدی صاحب اپنی ان تمام سرگرمیوں کے باوجود انتقال سے قبل جب ایک بار پیر شاہ مردان شاہ سے ملاقات کے لیے پیر جو گوٹھ گئے اور ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں پیرانِ پگارا کے قبرستان میں دفن کے لیے جگہ دے دی جائے تو پیر صاحب نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ یہ بزرگوں کی جگہ ہے، ہمارا تمہارا اس میں کیا مقام۔

پیر علی محمد راشدی، ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر نہیں بلکہ مشیرِ اطلاعات تھے۔ ضیاء حکومت نے مارچ 1977ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے طریقہء کار کے حوالے سے ایک دستاویز بنام ”1977ء کے انتخابات کے طریقہء کار پر قرطاسِ ابیض کا خلاصہ (مطبوعہ، حکومتِ پاکستان، راول پنڈی، جولائی 1978ء)“ جاری کی جسے بھٹو حکومت کی معزولی کے بعد منظرِ عام پر لایا گیا۔ اس دستاویز کے سرورق پر ایک دل چسپ جملہ تحریر ہے کہ:

”اسے 25 جولائی 1978ء سے پہلے شائع نہ کیا جائے۔“

یہ دستاویز جس کا نام ”قرطاسِ ابیض کا خلاصہ“ ہے، اس کی تفصیلی رپورٹ ”قرطاسِ ابیض“ 600 سے زیادہ صفحات پر مشتمل تھی۔ اسے دس ابواب میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس میں ایک ہزار سے زائد صفحات کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں شامل کی گئی تھیں۔ قرطاسِ ابیض کے خلاصے کے صفحہ نمبر 10 پر ایک اقتباس ”راشدی منصوبہ“ کے عنوان سے درج ہے۔

مسٹر بھٹو کے مشیرِ اطلاعات، پیر علی محمد راشدی کی ذہانت قابلِ داد ہے کہ انہوں نے مئی 1976ء میں ایک عملی تفصیلی پروگرام مرتب کیا جس کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اپوزیشن کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی صورت میں ایک کٹھ پتلی اپوزیشن کو سامنے لایا جائے۔

اقتباس: ”یہ کٹھ پتلی امیدوار بظاہر پورے جوش و خروش سے مقابلہ کریں لیکن سرکاری امیدواروں کے مقابلے میں شکست کھانے کے بعد انہیں کسی نہ کسی صورت میں معاوضہ دے دیا جائے۔

"ان میں سے چند قابلِ اعتماد لوگوں کو ہمارے غیر اہم امیدواروں کے مقابلے میں کامیاب ہونے دیا جائے تاکہ وہ منتخب ہونے کے بعد اسمبلیوں میں ایک تعمیری ذمے دار اور دوستانہ اپوزیشن کا کردار ادا کریں، اور اس طرح جمہوری اقدار، پارلیمانی طریقوں اور ضابطوں پر عمل ہوتا رہے۔“

انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ حکومت کی طرف سے ٹی وی اور ریڈیو پر حزبِ مخالف کے لیے جتنا وقت دینے کا فیصلہ کیا جائے، اس کا زیادہ تر حصہ ان کٹھ پتلی امیدواروں کو دیا جائے اور اسمبلیوں میں جعلی اپوزیشن قائم کرکے اپوزیشن کے اہم امیدواروں کو منتخب ہونے سے روکا جائے۔

”ہمیں حساس حلقوں اور ایسے افراد کی فہرست تیار کرنی چاہیے جنہیں کسی صورت بھی منتخب نہ ہونے دیا جائے۔ اس طرح کے مختص انتخابی حلقوں میں انتخابات کروانے کے لیے ہمیں خصوصی پروگرام تیار کرنا ہوگا۔“

پیر علی محمد راشدی ایک انتہائی موقع شناس اور زیرک سیاست دان تھے۔ انہیں حکمرانوں کے قریب رہنے کا ہنر بخوبی آتا تھا۔ گو کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں حکمرانوں کی قربت کو معیوب قرار دیا ہے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پیر صاحب نے حکمرانوں کے قریب رہنے کے لیے ہر وہ عمل کیا جسے عام زندگی میں ناپسندیدہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

م ب خالد اپنی کتاب ”قدرت اللہ شہاب کے ساتھ ایوانِ صدر میں سولہ سال“ (مطبوعہ نظریہ پاکستان اکادمی، جولائی 2012ء) کے صفحہ نمبر 43 پر ”سرکاری دورے“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:

"گورنر جنرل غلام محمد جسمانی اعتبار سے ناتواں ہوتے ہوئے بھی سرکاری دوروں اور سیر و تفریح کے بڑے شوقین تھے — نمونہ مشتے از خروارے — ایک اندرونِ ملک اور دو بیرونِ ملک دوروں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

"صوبہء سندھ کے دورے پر تھے۔ حیدرآباد اور بھٹ شاہ سے ہوتے ہوئے موئن جو دڑو اور لاڑکانہ پہنچے... سکھر میں گورنر جنرل کو دریائے سندھ میں کشتی کی سیر کروائی گئی۔ ایک بڑی کشتی میں گورنر جنرل اور ان کا عملہ، دوسری کشتی میں مقامی انتظامیہ، تیسری کشتی میں سکیورٹی اسٹاف اور چوتھی میں کھانے کی دیگیں رکھ دی گئیں۔

"ایک صوبائی وزیر جو پیشے کے اعتبار سے صحافی تھے، گورنر جنرل کی میزبانی کے فرائض انجام دینے کے لیے ہمراہ تھے۔ جب کھانے کا وقت ہوا تو مقامی انتظامیہ کے ایک افسر نے وزیر صاحب کے کان میں کہا، ”سائیں مانی تیار آہے“ (کھانا تیار ہے)۔ چاروں کشتیاں جڑ گئیں اور وزیر صاحب نے مقامی افسروں کے ہمراہ بیرے خانساموں کے فرائض انجام دیے۔

"یہ وزیر صاحب جو بعد میں وفاقی وزیر اور آخر میں سفیرِ کبیر اور بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران مشیر بنے، بڑے کائیاں تھے۔ غلام محمد سلیم شاہی جوتی پہنے ہوئے تھے جسے ان کا ذاتی خدمت گار قاسم اتارتا اور پہنایا کرتا تھا مگر کیا مجال کہ وزیر صاحب نے قاسم کو ایک موقع بھی دیا ہو۔ وزیر صاحب تیر کی طرح کہیں نہ کہیں سے نکل آتے۔ گورنر صاحب کو جوتی پہناتے اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو بوسہ دیتے۔

"بے شمار خوبیوں کے علاوہ وزیر موصوف کی اضافی خوبی یہ تھی کہ سگریٹ نہ پیتے تھے، البتہ بیڑی پینے کا شوق تھا۔ بھرم رکھنے کے لیے ٹریپل فائیو (555) سگریٹوں کے ڈبے میں بیڑیاں رکھتے اور بار برداری کا کام اپنے سرکاری پرائیویٹ سیکریٹری سے لیتے تھے۔ بیڑی کی طلب ہوتی تو پیچھے مڑ کر دیکھتے۔ پرائیویٹ سیکریٹری کامل تربیت یافتہ تھا، پھرتی سے آگے آتا، سر کو جھکاتا اور ادب سے کہتا، ”سائیں بیڑی!“ سائیں بیڑی کو سلگا چکتے تو پرائیویٹ سیکریٹری واپس اپنی جگہ پر پہنچ کر سر کو دوبارہ ہلاتا جیسے خدا کا شکر بجا لا رہا ہو۔ جب وزیر اتنا اچھا ہو تو اس کا پرائیویٹ سیکریٹری تو بہت ہی اچھا ہوگا۔"

ایوب خان کی بادشاہت کے حوالے سے صفحہ نمبر 179 پر لکھتے ہیں کہ:

"البتہ ہمارے ایک سفیرِ کبیر جن کے نام کے ساتھ پیر کا لاحقہ بھی شامل تھا، بالکل پٹڑی سے اتر گئے۔ بجائے اس کے کہ وہ خارجہ پالیسی پر اظہارِ خیال فرماتے جیسا کہ ان سے کہا گیا تھا، انہوں نے خارجہ پالیسی پر ایک لفظ کہے بغیر بعد از ادب آداب، آیتوں روایتوں اور تاریخی حکایتوں کے حوالے سے ایوب خاں کو باور کروانے کی کوشش کی کہ نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری امتِ مسلمہ اپنے طبعی مزاج کے اعتبار سے ہمیشہ ہی کسی مردِ کامل کی محتاج رہی ہے اور آج وہ مردِ کامل جنرل محمد ایوب خاں کی شخصیت میں پاکستان کو میسر آچکا ہے۔ چنانچہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ آپ فی الفور پاکستان میں بادشاہت کے قیام کا اعلان فرما کر اس ملک و قوم پر احسانِ عظیم فرمائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ نبض شناس، مرد شناس اور موقع شناس سفیرِ کبیر پیر علی محمد راشدی تھے۔"

18 نومبر 1983ء کو روزنامہ ڈان میں الطاف گوہر کے حوالے سے چھپنے والی ایک رپورٹ میں جو لندن سے یحییٰ سید نے بھیجی تھی، میں تحریر ہے کہ:

"پیر علی محمد راشدی نے اپنے خط میں ایوب خان کو لکھا تھا کہ ایوب خان کو اس امر کا مجاز ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں میں سے یا اگر وہ بیٹوں کو اس قابل نہ سمجھیں تو باہر سے کسی کو اپنی جانشینی کے لیے نامزد کردیں۔ پیر علی محمد راشدی نے اپنے خط میں مزید لکھا تھا کہ میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، پھر پاکستان کے سلسلے میں اور حال ہی میں ون یونٹ کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر چکا ہوں۔ میں ایک اور ایسی مہم کے لیے فلپائن سے آکر پاکستان میں وقت نکال سکتا ہوں۔"

18 نومبر 1983 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی خبر کا عکس۔ (ڈان کاپی رائٹ۔)

2 دسمبر 1983ء کو الطاف گوہر کے جواب میں پیر علی محمد راشدی نے روزنامہ ڈان میں لکھا تھا کہ "یہ مشورہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جب 1955ء میں 56ء کا آئین لکھا جا رہا تھا اور میں مرکزی کابینہ کا رکن تھا، میں نے آئین ساز کمیٹی میں موجود اپنے رفقاء کو یہ مشورہ دیا تھا، لیکن انہوں نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا۔“

پیر علی محمد راشدی کے اس بیان کے بعد الطاف گوہر نے وہ تمام دستاویزات، جن میں ایوب خان کو بادشاہت کا مشورہ دیا گیا تھا، شائع کردیں۔ پیر علی محمد راشدی نے ان باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ڈان میں اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ”میرے خیال میں آج کسی بھی شخص کے لیے جو متعدد منسوخ شدہ آئینوں 1947ء، 1956ء، 1962ء لیگل فریم آرڈر اور تازہ ترین ڈھانچے کے ملبے پر ساکت و صامت بیٹھا ہوا ہے اور پیمان کشی و حلف توڑنے کے متعدد واقعات کا شاہد ہے، یہ کوئی نئی حیران کن اطلاع نہیں ہوگی کہ تقریباً چوتھائی صدی قبل جب ملک میں آئینی خلا پایا جاتا تھا اور کسی نئے آئینی فارمولے کی تلاش جاری تھی، جب مجھ سے سرکاری طور پر رجوع کیا گیا تو میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہم برطانوی طرز کی آئینی بادشاہت کو آزما سکتے ہیں جس کے تحت تمام اختیارات عوام کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں اور سربراہِ مملکت کو کسی آرائشی شے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، جو ترقی سالمیت اور وقار کے لیے ایک جذباتی علامت بن جاتی ہے۔

2 دسمبر 1983 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے علی محمد راشدی کے تفصیلی جواب کا عکس۔ (ڈان کاپی رائٹ۔)

راشدی صاحب کہتے ہیں کہ "اس وقت کی صورتِ حال اتنی گمبھیر تھی کہ ایوب خان میرے پاس منیلا تشریف لائے، صرف ایک رات کے لیے، تاکہ صورتِ حال پر سیر حاصل بحث ہوسکے۔ میں اس وقت ایک وہاں ایک سفیر کے طور پر متعین تھا اور میرے پاس کوئی اختیار نہیں تھا کہ میں ان معاملات میں دخل دے سکوں۔

"لیکن ایوب خان نے شاید میرے سیاسی پس منظر کی وجہ سے یہ سوچا ہو کہ میں ان کو ان مسائل پر کوئی کارآمد مشورہ دے سکتا ہوں، لہٰذا انہوں نے منیلا میں اپنا قیام ایک دن کے لیے بڑھا دیا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں انہیں جلد ہی اپنی رائے سے آگاہ کروں گا جو کہ میں نے یکے بعد دیگرے دو یادداشتوں کے ذریعے انہیں پیش کی۔"

علی محمد راشدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ”روایتی طور پر جو شخص حاکمِ وقت ہوتا ہے، اسے عام آدمی کی نظر میں ایک تقدس حاصل ہوتا ہے۔ کسی مطلق العنان شخص کو قتل کرنا باعثِ ثواب ہے۔ اس کے برعکس بادشاہِ وقت کو قتل کرنے والا بہت بڑا مجرم ہے۔ اس کا سبق ہمیں اسلامی تاریخ سے وافر مقدار میں ملتا ہے۔ آئینی بادشاہت عملی طور پر بے ضرر ہوتی ہے۔ اس کی خود ستائشی کی خواہش سجے سجائے دفاتر سے پوری ہوجاتی ہے اور وہ اپنے مفاد کی خاطر جمہوریت اور اس سے وابستہ اداروں کو حیل و حجت کے بغیر کام کرنے دیتا ہے۔“

ان کا یہ مزید دعویٰ ہے کہ ”آئینی بادشاہت، جمہوریت کو رد نہیں کرتی۔ جیسا کہ سینکڑوں سال کے انسانی تجربے سے ثابت ہے۔“

علی محمد راشدی کے جواب میں الطاف گوہر کی شائع کی گئی دستاویزات کا عکس۔ روزنامہ ڈان، 23 دسمبر 1983۔(ڈان کاپی رائٹ۔)

م ب خالد نے وزیر موصوف کی سرگرمیوں کا مزید احوال اپنی کتاب میں یوں درج کیا ہے:

"1960ء میں ایوب خان کو لائف پریزیڈنٹ یا بادشاہ بننے کا مشورہ دینے والے بزرگ 1958ء میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے زندہ سلامت تھے۔ حاضری لگوانے اور نمبر بنانے کا شوق اور فن قدرت کی طرف سے ودیعت تھا۔ اِن بزرگ کو 1953ء میں غلام محمد کو جوتیاں پہناتے اور پہنا کر اپنے ہاتھوں کو چومنے اور چوم کر جھومتے دیکھنے کا راقم عینی شاہد ہے۔ یہ مردم شناس ہی نہیں موقع شناس بھی تھے۔ کیسے ممکن ہے کہ ان سے چوک ہوگئی ہو۔ ان صاحب کو یا اس قماش کے دوسرے صاحبان کو سانپ تو نہیں سونگھ گیا ہوگا کہ وہ گھر میں چپ سادھے آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھے رہے ہوں۔ اقتدار سے وفاداری یا ”انسانیت“ بھی تو کوئی چیز ہے۔"

میں یہ نہیں جانتا کہ پیر علی محمد راشدی کو محقق کہوں، سیاست کہوں، ادیب کہوں، دانشور کہوں یا شاعر لکھوں۔ لیکن پاکستان کی تاریخ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک کمال ہوشیار انسان تھے۔ وہ آمروں کی حمایت کرتے تھے اور جمہوری اداروں کے ساتھ بھی ہوتے تھے۔ صحافیوں اور ادیبوں کے لیے بھی بہت ہمدردی رکھتے تھے اور ادب کے فروغ کے لیے بھی انہوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔

ان کی کتاب ”اھی ڈینھن اھی شینھن“ (وہ دن وہ لوگ)، ”رودادِ چمن“ اور اس کے علاوہ بے شمار مضامین جو انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے لکھے، ان مضامین کے حوالے آج بھی دیے جاتے ہیں۔

لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ کو سزائے موت دلوانے میں انہوں نے بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا، ایوب خان کو بادشاہت قائم کرنے کا مشورہ دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خود ساختہ حزبِ اختلاف بنانے کی بھی تجویز دی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کتابوں میں تاریخ کے ایسے گوشے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں جن کا سایہ بھی ہمیں کہیں اور نہیں ملتا۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ علی محمد راشدی دانشور تھے، ادیب تھے، تاریخ دان تھے۔

لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ ہے کہ ان کے یہ گرانقدر مشورے کیا سیاست کے زمرے میں آتے ہیں یا سازش کے۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔