استنبول میں چند روز-2


یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں
اگلے دن ہمارا پروگرام ڈولما باچی پیلیس دیکھنے کا تھا- ٹرام سے وہاں پہنچے- یہ محل باسفورس کے کنارے واقع ہے- اور باسفورس کا نہایت خوبصورت نظارہ پیش کرتا ہے- اب یہ محل ایک میوزیم ہے اور استنبول کے چند سب سے زیادہ قابل دید مقامات میں اس کا شمارہوتا ہے-
اسے دولت عثمانیہ کے اکتیسویں سلطان عبدالمجید اول نے بنوایا تھا جو ملکہ وکٹوریہ کا ہم عصرتھا- ملکہ وکٹوریہ نے اس محل کیلئے ایک کرسٹل شینڈلیئر تحفہ میں دیا تھا جو غالباً دنیا کا سب سے بڑا شینڈلیئر ہے اورمحل کے مرکزی ہال میں آویزاں ہے- اس محل کی چھت کی تزئین پر چودہ ٹن خالص سونا استعمال کیا گیا ہے-
وہاں سے واپسی پر ٹرام کے ساتھ ساتھ تقریبا ایک میل لمبا جلوس دیکھا جس میں زیادہ تر نوجوان طلباء نظرآرہے تھے- ان کے ہاتھوں میں اپنے ملک کے پرچم تھے اور وہ نعرے لگاتے گزر رہے تھے- احتجاج بڑھ رہآ تھا-
پھر ہم نے اخباروں اور ٹی وی پرحکومت کے خلاف عوام کے غصے کی خبریں پڑھیں- دکانداروں سے ہلکی پھلکی بات چیت میں اندازہ ہوا کہ لوگ اردگان کی حکومت کے"اسلام ازم" کےایجنڈے کے خلاف ہیں- انہیں ڈر ہے کہ ان سے آہستہ آہستہ آزادیاں چھین لی جائینگی اور معاشرے کو بنیاد پرستی کی طرف دھکیل دیا جائیگا- عوام ان اقدامات کو پسند نہیں کرتے-
پچھلے دنوں میں ہم نے عرب اسپرنگ کے بارے میں کافی کچھ پڑھا اور سنا مگر ترکی میں جو اضطراب اور بے چینی ہے، اس کا رنگ بالکل جدا ہے- بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بالکل الٹا ہے-
پاکستان میں بھی پچھلے انتخابات میں نوجوانوں کا بڑا اہم رول تھا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست میں نوجوانوں نے اتنے جوش اورجذبہ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کی، گرچہ اس میں انکو اتنی کامیابی نہیں ہوئی-
لیکن ترکی کے نوجوانوں کے عزم وحوصلہ کے آگے حکومت بھی کسی حد تک پسپا ہوئی ہے- تقسیم اسکوائرمیں حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا-

حکومت مخالف مظاہرے، اب استنبول کے علاوہ انقرہ اور ترکی کے دیگر شہروں میں بھی پھیل چکے ہیں، جن میں اب مزدور یونینیں بھی شامل ہو چکی ہیں- اس کی وجہ اردگان کا آمرانہ رویہ بیان کیا جاتا ہے- انہوں نے یہ که کر اس احتجاج کو مسترد کر دیا کہ یہ چند لٹیروں، شرابیوں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کی کاروایئاں ہیں-
یہ کہہ کر وہ خود شمالی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوگئے کہ حالات خود بخود سدھر جائینگے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردگان حکومت کی دس سالہ بہترمعاشی کارکردگی کے باوجود عوام میں بے چینی اور اضطراب موجود ہے- نیز اپنے تنقید نگاروں کی جانب حکومت کا رویہ سخت ہے-
انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق ترکی میں پابند سلاسل صحافیوں کی تعداد چین سے بھی زیادہ ہے- ٹیلی وژن مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے- جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ تقسیم اسکوائر میں پرامن مظاہرین پر جس وقت گولی چلائی جارہی تھی اور آنسو گیس پھینکی جارہی تھی، ترک ٹیلی وژن معمول کے مطابق پروگرام نشر کررہا تھا-
کسی چینل پر فیشن شو دکھایا جا رہا تھا، تو کسی پر کھانے پکانے کے پروگرام نشر ہو رہے تھے اور کسی چینل پر گلوکار اپنے فن کی داد وصول کر رہے تھے- حتٰی کہ سی این این انٹرنیشنل مظاہرین پر ہونےوالے تشدد کے مناظر دکھا رہا تھا جبکہ سی این این کا مقامی چینل پینگوئن پر پروگرام نشر کررہا تھا-
مبصرین کے مطابق ترکی کی عدالتیں بھی آزاد نہیں ہیں- ترکی میں اگلے انتخابات دو ہزار پندرہ میں متوقع ہیں- کہا یہ جا رہا ہے کہ اردگان اس کوشش میں ہیں کہ ترکی میں امریکی طرز کا صدارتی نظام رائج کیا جائے- کیونکہ ترکی کی موجودہ جسٹس پارٹی کے منشور کے مطابق وہ چوتھی مرتبہ ملک کے وزیرآعظم منتخب نہیں ہوسکتے- چنانچہ ان کی کوشش ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں ایک بااختیار صدر کی حیثیت سے نمودار ہوں-
کہا یہ بھی جاتا ہے کہ خود موجودہ صدر عبدﷲ گل بھی صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمند ہیں- اگرچہ دونوں جانب سے کوئی بیان ابتک سامنے نہیں آیا ہے- حالانکہ دونوں کا تعلق ایک ہی سیاسی پارٹی سے ہے لیکن دونوں کے نقطہء نظر میں ملکی مسائل کے تعلق سے کافی فرق ہے-
فی الحال تو اردگان نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے مظاہرین سے کہا ہے کہ حکومت کی تبدیلی صرف بیلٹ پیپرکے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے اور اسکے لیے انتخابات کا انتظارکرنا ہوگا-
انہوں نے ان خبروں کوبھی محض افواہ قرار دیا کہ دو ہزار پندرہ کے انتخابات بھی آگے بڑھا دیئے جائینگے- انہوں نے مخالفین کے اس مطالبے کو بھی مسترد کردیا کہ انتخابات قبل از وقت کرائے جائیں-
البتہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت نے تقسیم اسکوائر میں شاپنگ مال اور عثمانیہ دور حکومت کے طرز کے بیرکس تعمیر کرنے کا منصوبہ ترک کردیا ہے- اس کی جگہ اردگان کے ایک حالیہ بیان کے مطابق یہاں ایک اوپیرا ہاوس، تھیئٹر اور ایک میوزیم بھی تعمیرکیا جائیگا-
گذشتہ نو دنوں کے احتجاج کے نتیجہ میں تین افراد ہلاک اورسینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے- ہلاک ہونے والون میں پولیس کا ایک اہلکار بھی شامل ہے- تقسیم اسکوائر پر ہونے والے مظاہروں کی اہم وجہ اردگان کا آمرانہ رویہ ہے- انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ حکومت عوام کی نجی زندگی میں دخل انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے-
وہ حکومت کی جانب سے شراب پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف ہیں- انہیں اردگان کے اس بیان پراعتراض ہے جو انہوں نے عورتوں کے لباس کے بارے میں دیا اور یہ کہ عورتیں کم از کم تین بچے پیدا کریں-
اپنے پانچ چھ دن کے قیام کے دوران شام کے وقت، میں نے سڑکوں پر بھکاریوں کو دیکھا جس میں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی- ان میں سے بیشتر عمر رسیدہ نظر آئیں- ایک عورت کو میں نے بچے کو بغل میں دبائے اسی طرح بھیک مانگتے دیکھا جیسے کراچی کی سڑکوں پردیکھتے ہیں-

ایک جگہ ایک عورت اپنے بیمار بچے کو سڑک پر لٹائے دست سوال دراز کر رہی تھی- ایک جگہ میں نے چند بچوں کو ٹشو پیپر کے پیک بیچتے اور ایک معذور فقیر کو سڑک پر گھسٹتے بھی دیکھا، یعنی اس شہر میں جو بظاہر متموّل نظر آتا ہے غربت یقیناً ایک مسئلہ ہے-
عورتیں بھی معاشی جدوجہد میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں- عموماً شام کے وقت شہر کے فٹ پاتھوں پر بازار سج جاتا ہے- ہینڈ بیگ سے لیکر کھلونے، جوتے، گھڑیاں، کپڑے، پرفیوم وغیرہ وغیرہ جن میں مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی کھڑی ہوتی ہیں- البتہ لگتا ہے "پولیس والے" بالکل اسی طرح یہاں ان کے پیچھے لگے ہوتے ہیں جیسے ہمارے یہاں - اچانک ہی لوگ اپنا اپنا سامان سمیٹ کر بھاگنے لگتے ہیں-
ترکی کی جمہوریت کو مشرق وسطی کے ممالک کیلئے ماڈل سمجھا جا رہا تھا لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب اس نظریہ میں تبدیلی آئیگی- مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے استنبول میں تاریخ کو بنتے ہوئے دیکھا-