ہلدی قدرتی طور پر جراثیم کش خوصیات کی حامل ہے جو خراشوں، زخموں اور جلنے وغیرہ کے لیے مفید ہے۔
ہر ثقافت کے اپنے مصالحے اور جڑی بوٹیاں ہوتے ہیں جو غذائی اعتبار سے کسی پاور ہاﺅس سے کم نہیں ہوتے۔ جب میں یہ مضمون لکھ رہی تھی تو اس وقت میں تھوڑی سی ہلدی کے ساتھ سبزیوں کا شوربہ بنانے کی تیاری کر رہی تھی تاکہ موسمی نزلہ زکام کی روک تھام کرسکوں، کیونکہ میں صحت کے معاملے میں حفظِ ماتقدم پر یقین رکھتی ہوں۔
پاکستانی کھانوں میں ہلدی عمومآ استعمال کی جاتی ہے اور یہ مجھے بھی پسند ہے۔ میں اسے متعدد تخلیقی طریقوں سے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
یہ ادرک کی نسل کے پودے Curcuma Longa کی جڑ سے نکالی جاتی ہے. مصالحے دار اور گرم ہلدی اپنی تیز مہک اور زرد رنگ کی بدولت جانی جاتی ہے۔ قدیم چینی ادویات اور آیورویدک طریقہ علاج میں اس کی تاریخ کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اس کے فوائد ہلدی قدرتی طور پر جراثیم کش خصوصیات کی حامل ہے اور خراشوں، زخموں اور جلنے وغیرہ کے لیے مفید ہے۔ یہ ایک فوری مرہم کا کام کرتی ہے، خون کے لوتھڑوں کی روک تھام اور زخم پر لگانے کی صورت میں نئے خلیات کی افزائش میں مدد دیتی ہے۔
بچپن میں میری دادی اکثر اس کا پیسٹ میرے چھلے ہوئے گھٹنوں پر لگاتی تھیں اور وہ فوری طور پر ٹھیک ہوجاتے تھے۔ یہ درد بھی دور کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ درد میں کمی لانے کے لیے بھی بہترین ہے۔
تصویر بشکریہ لکھاری طاقتور اینٹی بایوٹک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ انفیکشنز جیسے ای کولی کی بھی روک تھام کرتی ہے (یہ بیکٹریا عام طور پر صحت مند انسانوں اور جانوروں کے اندر ہوتا ہے، تاہم آلودہ پانی یا گائے کے کچے پکے گوشت کے ذریعے جسم میں داخل ہونے پر شدید انفیکشن، معدے کے درد، الٹیوں، خونی ہیضے اور اکڑن کا باعث بن سکتا ہے)۔
میں ہلدی کو بہت پسند کرتی ہوں کیونکہ یہ جگر کی صفائی کا کام کرتی ہے. ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہم بہت زیادہ کھا لیتے ہیں اور خوراک، ہوا، ذاتی نگہداشت اور گھریلو مصنوعات کے نتیجے میں بہت زیادہ زہریلے مواد جیسے کیمیکلز، کیڑے مار ادویات، آلودہ پانی، بھاری دھاتوں وغیرہ کے اثر میں آتے ہیں۔
یہ زہر ہمارے جگر، گردوں، لمفی نظام اور خاص طور پر شمحی بافتوں (فیٹ ٹشوز) میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ان زہریلے مواد کا انبار کاربوہائیڈریٹس، پروٹینز اور غذائیت کو ہضم کرنے میں مزاحمت کرتا ہے۔
مزید برآں یہ مواد ہمارے جسم میں آکسیجن کی مقدار کو کم کرتے ہیں جس سے ایک تیزابی، کم توانائی اور خراب کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ہم امراض کا آسان نشانہ بن جاتے ہیں۔
روزمرہ کی بنیاد پر ہلدی کا استعمال ان زہریلے اثرات کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے اور ان کا انبار کم کر کے جگر کو ٹھیک رکھتا ہے۔
اس مصالحے کا ایک اور حیرت انگیز فائدہ اس کی جلن کش خوبیاں ہیں۔
ماڈرن پاکستانی خوراک پراسیس فوڈز سے بھرپور ہے جن میں حد سے زیادہ نمک اور سڑے ہوئے تیل کا استعمال ہوتا ہے جو جسم کے اندر جلن اور دیگر نقصانات کا باعث بنتے ہیں جن سے وقت گزرنے کے ساتھ الرجی، دمہ اور جوڑوں کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ان غذاﺅں کا تعلق یادداشت کھونے، کینسر، امراض قلب، موٹاپے اور ڈپریشن سے بھی جوڑا جاتا ہے۔
ہلدی کا روزانہ استعمال جسم میں سوجن کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتا ہے جبکہ اس کی زرد رنگت میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس نقصانات کا ازالہ اور علامات کا خاتمہ کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق ہلدی کا موزانہ مختلف ادویات جیسے موٹرین، بروفین (آئی بپروفین) اور اسپرین سے کیا جاسکتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے اس میں قدرتی خصوصیات زیادہ ہوتی ہیں، اور دواؤں کی طرح زہر نہیں ہوتا.
ہلدی ایک سادہ چیز ہے جو بلڈ شوگر کی سطح کو متوازن رکھنے، دن بھر میں توانائی کی سطح کو برقرار رکھنے اور بہتر مزاج کے لیے مدد دیتی ہے۔
جیسا پہلے لکھا جاچکا ہے کہ ہماری جدید غذائیں، چاہے کتنی ہی ذائقہ دار کیوں نہ ہوں، نقصاندہ چربی اور کولیسٹرول سے بھرپور ہوتی ہیں جو کہ ہمارے لیے ٹھیک نہیں۔
کولیسٹرول کی دو اقسام ہوتی ہیں، لو ڈینسیٹی لیپو پروٹین یعنی 'برا کولیسٹرول' اور ہائی ڈینسیٹی لیپو پروٹین 'اچھا کولیسٹرول'. خراب چربی برے کولیسٹرول پر مشتمل ہوتی ہے۔
کولیسٹرول کے مرض کی صورت میں اکثر اینٹی کولیسٹرول ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔
ہلدی زہر سے پاک ہربل حل ہے جو کولیسٹرول لیول کو تیزی سے کم کرنے، زیادہ مؤثر اور طویل المعیاد بنیادوں پر شریانوں کی اکڑن یا بلاک ہونے سمیت امراض قلب کی روک تھام کرتا ہے۔
ہلدی کو کیسے استعمال کریں ذائقہ بڑھائیں : چند تازہ سبزیوں (کٹی ہوئی شکرقندی، گوبھی، مٹر، پالک) کو زیتون کے تیل اور ہلدی کے ساتھ ملالیں۔
انہیں 400 ڈگری پر روسٹ کریں جس کے بعد انہیں آپس میں ملالیں اور بس۔
آپ اسے شام میں منہ چلانے یا سائیڈ ڈش کے طور پر رکھ سکتے ہیں اور اگر دل چاہے تو رات کا کھانا بنالیں۔
آپ چاہیں تو ان سبزیوں کو تل کر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
تصویر بشکریہ لکھاری سنہرا دودھ : یہ ایک قدیم آیورویدک ترکیب ہے جسے متعدد طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بس آپ کو اپنی پسند کے گرم دودھ (ڈیری، بکری، خشک میوہ جات، چاول یا جو، میں روایتی ڈیری کا دودھ نہیں استعمال کرتی بلکہ کاجو سے اپنے گھر میں دودھ بناتی ہوں) دیسی گھی یا تیل اور ہلدی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پیسٹ کو بنانے کے لیے آدھا کپ فلٹر پانی کو چوتھائی کپ پسی ہوئی ہلدی میں مکس کریں، اس مکسچر کو اس وقت تک ہلائیں جب تک وہ گاڑھا نہ ہوجائے۔
سنہرا دودھ بنانے کے لیے آدھا چائے کا چمچ ہلدی پیسٹ ساس پین کے اندر ایک کپ دودھ میں ملائیں اور پھر اسے پانچ منٹ تک کے لیے ڈھانپ دیں۔
اسے پینے سے قبل آدھا چائے کا چمچ گھی یا تیل کا ملالیں۔
آپ اس میں دیگر مصالحے جیسے ادرک، کالی مرچ، دارچینی یا شہد وغیرہ کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔
ہلدی کے پیسٹ کو فریج میں دو ہفتوں تک کے لیے اسٹور کیا جاسکتا ہے۔
عام طور پر اسے پینے کا بہترین وقت سونے سے قبل کا ہوتا ہے تاکہ اچھی نیند اور دیگر طبی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
ہلدی کی چائے : ایک کپ پانی کو ابالیں اور پھر اس میں آدھا چائے کا چمچ ہلدی ملائیں۔ اب اسے دس منٹ تک پکنے دیں اور پینے سے قبل چھان لیں۔ اس میں اپنی پسند کی مٹھاس بھی آپ شامل کرسکتے ہیں۔
اپنی جلد پر لگائیں : ہلدی کو جب جلد پر لگایا جاتا ہے تو یہ سوجن اور خارش میں کمی لاتی ہے۔
بس کچھ مقدار میں ہلدی کو کسی بھی ٹھنڈی خاصیت والے تیل (ناریل کے تیل، بادام، کیسٹر اور تلوں کے تیل میں ملائیں) اور پھر جلد پر لگائیں۔
پندرہ منٹ بعد اسے دھو لیں، یہ عارضی طور پر آپ کی جلد پر دھبہ ڈال دے گی تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسی جگہ لگائیں جو آسانی سے ڈھکی جاسکیں یا کچھ دیر کے لیے زرد ہونے پر فکرمند نہ ہوں۔
مگر اس سے پہلے کہ آپ ہلدی کو استعمال کرنا شروع کریں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ہلدی پاﺅڈر مت لیں جو سپرمارکیٹ کے شیلف پر سجا رکھا ہوا ہو.
حقیقت تو یہ ہے کہ متعدد مصالحوں کو روایتی طریقوں سے اگایا جاتا ہے یعنی کیڑے مار ادویات کے ساتھ اور وہ نامیاتی نہیں ہوتے۔
اگر آپ ہلدی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ اعلیٰ معیار کی پسی ہوئی یا تازہ ہلدی استعمال کریں تاکہ بہترین طبی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
انوشے شروف
انوشے شروف ماہرِ قدرتی غذائیت ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔