نقطہ نظر

سن لو شرمین!

کئی دہائیوں سے اس سماجی ناسور کو بااثر طبقے کی پشت پناہی حاصل رہی ہے تو ظاہر ہے اسے برا کیونکر سمجھا جائے گا؟

حد کردی، بھلا کوئی یوں گھر کی بات سرعام کرتا ہے؟ تم نے تو ہمیں کہیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا۔ پہلے ہی "سیونگ فیسز" پر آسکر جیت کر ہمارے منہ پر کالک پوت دی، اب اس کارنامے نے تو ہماری گردنیں اس حد تک جھکا دی ہیں کہ اپنا پھٹا ہوا گریبان اور چاک دامن صاف نظر آرہے ہیں۔

بات تھی سات پردوں میں چھپا کے رکھنے کی، اسے یوں بیچ چوراہے پر سنیما کے پردے پر دکھا ڈالا۔ مشرق روایتوں کا ذرا بھی لحاظ نہیں۔ اب ہماری جگ ہنسائی ہوگی، جس مشرقی تہذیب کا ہم ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں اور گوروں کو لعنت ملامت کرتے ہیں، اب وہ ہماری ہنسی اڑائیں گے اور ہم منہ چھپاتے پھریں گے۔

کچھ نہ سوچا 'مملکتِ خداداد' پاکستان کا، کٹوا دی ناک فرنگیوں کے آگے ہماری۔ اب کیا ہوگا ان 'معزز' خاندانوں اور قبیلوں کا جو انہی رواجوں کے بل بوتے پر پھل پھول رہے ہیں، اب کس طرح ان رواجوں کو اپنے مظالم کا جواز بنائیں گے؟ اب کس منہ سے باپ بھائی اپنے گناہوں کا قصاص بہنوں بیٹیوں کے خون سے بھریں گے؟ "اینٹی اونر کلنگ بل" ان سے یہ حق چھین لے گا، کچھ اندازہ ہے کیا ظلم ڈھایا ہے مردوں پر تم نے؟

دیکھو شرمین، بات کو سمجھو۔ سماجی مسائل اس وقت مسائل سمجھے جاتے ہیں جب وہ سماجیات کی رو سے چار شرائط پر پورا اترتے ہوں: اول لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان سے متاثر ہوں؛ دوم ان مسائل کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہو؛ سوم عوامی فورمز پر ان پر بات کی جاتی ہو؛ چہارم ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے۔

سو یہ تو ہم جانتے ہیں کہ کاروکاری سے متاثرہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی شماریات کے مطابق صرف سال 2014 میں غیرت کے نام پر قتل میں 15 فیصد اضافہ ہوا اور 1005 کیسز رپورٹ کیے گئے (یہ صرف ریکارڈ کیسز کا شمار ہے)۔

پڑھیے: پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر سات سال میں تین ہزار قتل

جہاں تک تعلق ہے ناپسندیدہ قرار دینے کا تو کئی دہائیوں سے اس سماجی ناسور کو بااثر طبقے کی پشت پناہی حاصل رہی ہے تو ظاہر ہے اسے برا کیونکر سمجھا جائے گا؟ عوامی فورمز پر یہ مسائل زیرِ بحث آتے ہی ملک کی ساکھ خطرے میں پڑ جاتی ہے، آواز اٹھانے والوں کو ڈالر خور، مغربی ایجنٹ، فاحشہ اور ایک سے بڑھ کر ایک خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ باقی رہ جاتی ہے اجتماعی کوشش، تو بہن ایک چیز کو جب غلط سمجھا ہی نہیں جاتا ہو تو اس کے خاتمے کے لیے کیسی اجتماعی کوشش؟

یہ جان لو کہ مملکت خداداد پاکستان کی عوام ایک خیالی معاشرے کے تصور میں غرق ہے، اسی لیے محاورتاً ہی نہیں بلکہ حقیقتاً ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اب اس کے پیچھے سے ہمیں کیسے ونی و کاروکاری جیسی قبیح رسمیں نظر آئیں گی؟ ظاہر ہے ایسی صورت میں انہیں نظر انداز ہی کیا جاسکتا ہے، سو وہ ہم کئی دہائیوں سے کیے جا رہے ہیں۔ اور اگر بھولے بھٹکے کوئی واقعہ ہم تک پہنچ بھی جائے تو آنکھیں بند کر کے سینے پر ہاتھ رکھ کر آل از ویل، آل از ویل کی گردان کرتے ہوئے موضوع بدل لیتے ہیں۔

ہم تین دانا بندروں کی مانند نہ برا دیکھتے ہیں، نہ سنتے ہیں اور نہ ہی برا کہتے ہیں (آخرالذکر بحث طلب ہے)۔ خود اپنے معاشرے کا یہ گھناؤنا رخ نہیں دیکھنا چاہتے تو باہر والوں کو دکھانا تو دور کی بات ہے۔

مزید پڑھیے: گھریلو تشدد: پاکستانی 'کلچر' - حقیقت کیا ہے؟

اس بحث میں نہ پڑو کہ کتنی معصوم جانیں دہائیوں سے مشرقی روایات کی بھینٹ چڑھتی آرہی ہیں، سب اچھا اچھا دکھاؤ، پاکستان کے حسین مناظر دکھاؤ گہری نیلی جھیلیں، بلند برفانی پہاڑ، لہلہاتے کھیت، مگر ان کے پیچھے جو انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے، خدارا اسے نہ دکھاؤ، ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔ سمجھا کرو یہ چادر اور چار دیواری کی پخ بنائی ہی اسی لیے گئی ہے کہ ان کے پیچھے جو کچھ بھی ہوتا رہے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو …. ششش!

شرمین تم یہ بھول گئیں کہ یہ قوم سچائی سے ڈرتی ہے، اسے آئینہ دکھانے کی کوشش میں تم خود کو زخمی کر لوگی لیکن انہیں کبھی اپنا مکروہ چہرہ دکھائی نہیں دے گا۔ اگر تم نے وطن سے باہر کوئی کارنامہ انجام دیا ہوتا تو ہم سب تمہیں "اون" کرنے اٹھ کھڑے ہوتے، تمہارے نام سے ٹرینڈ بنائے جاتے لیکن یہاں صورتحال ذرا مختلف ہے۔ ہم جس گلتے سڑتے تعفن پھیلاتے ناسور کو گھر کی چار دیواری کے اندر کسی کال کوٹھڑی میں رکھ کر بھول جانا چاہتے ہیں، اسے بیچ چوراہے پر لے آئیں، اب ہم تلملائیں نہیں تو اور کیا کریں؟

پاکستان تیسری دنیا کا حصّہ ہے جہاں نہ سیاسی نمو ہے اور نا ہی سماجی و فکری ارتقاء۔ اور اگر کوئی بھولا بھٹکا کبھی عقل کی بات کر بھی دے تو ہم اسے ہم ملک میں ٹکنے ہی نہیں دیتے ( بعض حالات میں دنیا میں)۔ پہلی اور تیسری دنیا کے بیچ یہ خلیج پاٹنے کی کوشش لاحاصل ہے۔ ایک بات جان لو بی بی! ہمیں اپنے وطن کی ساکھ بہت عزیز ہے۔ تم چاہے آسکرز کے ڈھیر لگا دو پر یاد رکھو ہم نے تو وطن عزیز کے لیے نوبیل پرائز جیتنے والوں کو نہیں بخشا، تو یہ فلمی ایوارڈ کیا چیز ہے؟

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔