ناسا سیٹلائٹ سے پاکستان میں پانی کا مسئلہ حل؟
پاکستان میں فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے آب پاشی کا مربوط نظام بنایا گیا ہے جبکہ ملک کے بڑے شہروں میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زمینی پانی پر انحصار کیا جانے لگا ہے۔
جیسا کہ پاکستان میں 60 فیصد سے زائد پانی زیرِ زمین ذخائر سے حاصل کیا جارہا ہے، انتظامیہ کے لیے اس بات کی بہتر انداز میں نگرانی کرنا بہت مشکل ہے کہ کسی مخصوص جگہ پر زیرِ زمین پانی کی سطح کتنی ہے.
لیکن اب چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور ناسا کے بحالی کشش ثقل اور آب و ہوا کا تجربہ ( Nasa's Gravity Recovery and Climate Experiment) یعنی (گریس) سیٹلائٹس کی مدد سے قدرتی وسائل کی نہ صرف موثر نگرانی بلکہ ان کے بہتر انتظام کی بھی سہولت حاصل ہوجائے گی۔
سیٹل میں واقع یونیورسٹی آف واشنگٹن میں واٹر مینیجرز، انجینیئرز اور ہائیڈرولوجسٹس کے تعاون سے ان سیٹلائٹس کو استعمال کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے شعبہ سول اینڈ ماحولیاتی انجینیئرنگ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر فیصل حسین نے بتایا، 'سیٹلائٹس کی مدد سے اس بات کا اندازہ لگانے سے کہ ہمارے پاس زیرِ زمین، دریاؤں میں یا فضا میں کتنا پانی موجود ہے، پالیسی سازوں کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے'.
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ان سیٹلائٹس کی مدد سے ترقی پذیر ممالک میں سیلاب کی پیش گوئی کے ساتھ ساتھ اُن علاقوں کی نشاندہی کرنے میں بھی مدد ملتی ہے، جہاں زیرِ زمین پانی کی سطح میں کمی واقع ہورہی ہو.
یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز نے رواں برس جنوری میں گریس سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال شروع کردیا، تاکہ دریائے سندھ کے قریب زیرِ زمین پانی کی سطح کی ماہانہ اَپ ڈیٹس حاصل کی جاسکیں.
ان ماہانہ رپورٹس سے محققین کو زیرِ زمین پانی کا پتہ چلانے اور ان کے استعمال کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے میں مدد ملے گی.
یہ کام کیسے کرتے ہیں؟
گریس کے 2 سیٹلائٹس پانی میں ہونے والی تبدیلیوں کے وجہ سے کشش ثقل کا اندازہ لگانے کے لیے 2002 میں خلاء میں بھیجے گئے، جس کے ذریعے سائنسدان اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پانی کہاں موجود ہے، یہ وقت کے ساتھ کس طرح تبدیل ہوتا ہے جبکہ پانی خصوصاً زیر زمین پانی کی سطح اور مقدار کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے.
پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ہائیڈرولوجسٹ نوید اقبال کے مطابق ان سیٹلائٹس کے استعمال سے ہم اُن مقامات کی نشاندہی کرسکتے ہیں، جہاں زیرِزمین پانی کی سطح خطرے کے قریب ہے، ہم کسانوں اور واٹر مینیجرز کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر اور زیادہ دیر تک چلنے والے منصوبے بھی بنا سکتے ہیں.
فیصل حسین کے مطابق لوگوں کو بھیجنا اور زیرِ زمین پانی کی سطح کی پیمائش جیسے روایتی طریقوں میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ یہ مہنگا بھی ہے، تاہم سیٹلائٹ کی مدد سے کم خرچ میں یہی کام کیا جاسکتا ہے.
مثال کے طور پر واٹر مینیجرز کو دریائے سندھ کے قریب مانیٹرنگ نیٹ ورک قائم کرنے میں 8 سال کا عرصہ لگا اور اس نیٹ ورک کی مدد سے بھی سال میں صرف 2 مرتبہ ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن ناسا کے دیگر سیٹلائٹس کی طرح گریس کی مدد سے کسی بھی ناسا ڈیٹا سینٹر سے اس حوالے سے ڈیٹا مفت حاصل کیا جاسکتا ہے.
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔