نقطہ نظر

لازمی سروسز ایکٹ اور ملُو مہارانی

1952 میں لازمی خدمات کا قانون کیوں نافذ کیا گیا؟ اس کے پیچھے اہم وجوہات پوشیدہ ہیں۔

جس وقت میں نے ملُّو مہارانی کو دیکھا تو اس وقت ان کی عمر کم از کم 85 برس ہوگی۔ میں یہ سطور 3 سال بعد لکھ رہا ہوں۔ وہ ایک ریاست کی ملکہ نہیں، مہارانی ہیں۔

مہارانی کیوں ہیں، اس کا جواب بہت ہی آسان ہے کہ ملُّو مسلمان نہیں، ہندو ہیں اور اُن کی بہو اُن کی ولی عہد۔ ولی عہد اس لیے کہ ملُّو کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی شادی اُنہوں نے بڑے پیار سے رچائی تھی۔ بیٹا بھری جوانی میں چار بچے پیدا کر کے آنجہانی ہوگیا۔ بچے چھوٹے تھے، اس لیے وہ ریاست کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال نہیں کرسکتے تھے، اس لیے ملُّو نے اپنی بہو کو ریاست کے معاملات کی نگرانی کا کام سونپ دیا۔

ملُّو مہارانی ریاستی امور کو سلجھانے کے لیے صبح سویرے ریاست کے دارالحکومت میں اپنی بہو کے ہمراہ پہنچ جاتی تھیں۔ ان کی پہلی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ریاستی خزانے میں سے کوئی چیز بھی باہر نہ جائے اور کوئی 'گُھس بیٹھیا' ریاست کے معاملات میں مداخلت نہ کر سکے۔

ملو ایسے تمام لوگوں کو اپنی جادوئی چھڑی کے ذریعے دارالحکومت سے دور رکھتیں۔ دارالحکومت کے آس پاس رہنے والوں میں سے اکثر لوگوں کو ریاست کے قواعد و ضوابط کا بخوبی علم تھا، اس لیے ان کی جانب سے کبھی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی تھی، لیکن کبھی کبھار بیرونی عناصر اس قاعدے کی خلاف ورزی کرتے تھے جن میں سے اکثر افغانستان کے لوگ ہوتے تھے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں جب ریاستیں اور راجواڑے ختم ہوگئے تو ملُّو کی ریاست کہاں سے سے آئی؟ کہاں ہے؟ کس جگہ پر ہے؟ اس کا جواب یوں ہے کہ یہ ریاست بندر روڈ کے قریب عیدگاہ میٹرنٹی ہوم سے منسلک ہے۔ یہ ایک کچرا کنڈی ہے اور ملُّو اور اس کی بہو اس کچرا کنڈی کی تنہا مالکن ہیں۔

ملُّو اب بہت علیل ہے، اس لیے وہ اب وہاں نظر نہیں آتی۔ اب اس کچرا کنڈی پر گُھس بیٹھیوں کا قبضہ ہوچکا ہے جو کہ یہاں سے اپنی ضرورت کی چیزیں چنتے ہیں اور لے جاتے ہیں۔

ویسے تو ہم میں سے زیادہ تر لوگ لاشعوری طور پر اس چیز سے واقف ہوتے ہیں، لیکن جب سے میں نے ملو مہارانی کو دیکھا ہے، تب سے میں ایک بات پر بار بار غور کرنے کے باوجود سمجھنے سے قاصر ہوں، کہ کراچی کی گندگی اور غلاظت صاف کرنے والے صرف غیر مسلم، خصوصاً ہندو ہی کیوں ہیں؟

گزشتہ دنوں پی آئی اے کے ملازمین اور حکومتِ وقت کے درمیان نجکاری کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازع نے طول کھینچا تو حکومت نے ہڑتال ختم کرنے کے لیے لازمی خدمات کا قانون نافذ کردیا۔ اس ایکٹ کے تحت پی آئی اے کا کوئی بھی ملازم حکومتی اقدامات کی مخالفت کرے گا تو وہ ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا۔

یہ قانون 1952ء میں بنا تھا۔ اس کی شق نمبر 4 میں لکھا ہے کہ اس قانون کی زد میں آنے والا کوئی بھی سرکاری ملازم قانون کی حد میں آنے والے علاقے سے نقل مکانی نہیں کرسکتا۔

اس پر اظہارِ خیال پاکستان میں ہندوستان کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش نے اپنی کتاب ”پاکستان — قیام اور ابتدائی حالات“ میں کیا ہے۔ وہ کتاب کے صفحہ نمبر 71 پر لکھتے ہیں کہ:

سندھی ہندوؤں کی مہاجرت کے بارے میں چند خاص باتیں، چاہے وہ کتنی ہی پُرہول کیوں نہ ہوں، بتا دینا ضروری ہے۔ اتر پردیش، بالخصوص اس کے مشرقی اضلاع سے ہمیشہ سے لوگ بڑی تعداد میں تلاشِ روزگار میں پچھمی (مغربی) ہندوستان جاتے رہے ہیں — سلطان پور، کان پور، غازی پور، بنارس اور دوسرے اضلاع سے ہزاروں افراد احمد آباد، بمبئی اور دوسرے شہروں میں جاتے رہتے ہیں، جہاں وہ کارخانوں اور دوسرے اداروں میں کام کرتے ہیں۔ اُن کو سال میں ایک ماہ کی رخصت ملتی ہے، تب یہ اپنے اپنے گھر آکر بال بچوں میں اپنی چھٹیاں کاٹتے ہیں۔

"یہ لوگ خود تو دور دراز شہروں میں تکلیف سے اپنے دن گزارتے ہیں اور اُن کے اہل و عیال اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔ اپنی کمائی سے جو کچھ بچا سکتے ہیں، گھر بھیجتے ہیں تاکہ لگان اور مہاجن کے قرض ادا کردیے جائیں اور خاندانی جائیداد محفوظ رہے۔ کراچی میں بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد تھی۔

"جب ایک ایک ہندو گھر بار چھوڑ کر ہندوستان جانے کی تیاری کر رہا تھا تو ”اہم خدمات کا قانون“ نافذ کردیا گیا کہ کوئی مزدور، سرکاری ملازمین کے ذاتی خدمت گار اور اسی نوعیت کے دوسرے لوگ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔ مجھے اس حکم سے سخت صدمہ پہنچا۔ میں نے وزیراعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان سے جا کر کہا کہ قدیم رواج کے مطابق یہ لوگ سال میں ایک مہینہ گھر پر گزارتے تھے، اب اس کی اجازت ان کو نہ دینا نامناسب معلوم ہوتا ہے۔

"نواب زادہ نے جواب دیا کہ سال ہائے پیوستہ میں چھٹی ختم ہونے پر لوگ واپس آجاتے تھے، مگر اب گئے تو یہاں پلٹ کر نہ آئیں گے۔ اسی وجہ سے گھر جانے کی چھٹی جو اُن کو ملا کرتی تھی، منسوخ کردی گئی ہے۔

"میں نے کہا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر کوئی شخص اپنے وطن جانا چاہتا ہے تو اُس کو جانے کی ممانعت کیوں کی جائے اور اُس سے یہاں جبراً کیوں کام لیا جائے، خود آپ بھی تو اُترپردیش کے رہنے والے ہیں۔ آپ کی ہمدردی تو انہی لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔

"نواب زادہ نے کہا کہ اگر یہ افراد واپس نہ آئے تو سڑکوں اور بیت الخلاؤں کی صفائی کون کرے گا؟ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ خدا نے اُتر پردیش کے ہندوؤں کو کراچی کی سڑکیں اور بیت الخلاء صاف کرنے کے لیے نہیں پیدا کیا، کم از کم آپ کو تو اس ظلم و ناانصافی کی تائید نہیں کرنی چاہیے، لیکن میری کون سنتا؟

"میں نے وزیراعظم ہندوستان کو ان واقعات سے آگاہ کیا اور اُنہوں نے وزیراعظم پاکستان سے مراسلت بھی کی، مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ان میں سے جتنوں کو بھی ہندوستان بھیج سکا، روانہ کردیا، باقی ماندہ پر کیا گزری، اس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ (پاکستان— قیام اور ابتدائی حالات از سری پرکاش، ترجمہ: محمد حمایت الحسن، مطبوعہ تخلیقات، لاہور، اگست 1993ء)

یہ کوئی ایک ہی کہانی نہیں بلکہ اس طرح کی بے شمار داستانیں ہیں مگر ان داستانوں کو بیان کرنے کے لیے بہت زیادہ مطالعے کی ضرورت ہے۔ یہ مطالعہ ایک ہی کتاب تک محدود نہیں رہ سکتا بلکہ اس کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاست، تاریخ اور خصوصاً متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا بغور مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی ہم کسی ایک ایسے مقام پر پہنچ سکتے ہیں کہ آخر برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں وہ کیا چیزیں تھیں جن سے ہم نے صرفِ نظر کیا اور وہ ہمارے مطالعے سے محو ہوگئیں۔

عین ممکن ہے کہ ملُّو بائی اور اُس کا خاندان بھی مذکورہ بالا قانون کی زد میں آگیا ہو۔ اگر ہم تاریخِ عالم کا مطالعہ کریں تو ہجرت کرنے والوں میں امیر لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کیونکہ اُن کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ اپنی جائیداد اور محلّات چھوڑ کر صرف قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے وطن سے ہجرت کریں۔ ہجرت کا یہ عمل عموماً وہی لوگ کرتے ہیں جو کسمپرسی شکار ہوتے ہیں۔

سری پرکاش نے ہجرتوں کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ”سندھ کے ہندو تارکانِ وطن کے مصائب“ کے عنوان کے تحت اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 73 پر ہندو اشرافیہ کی پاکستان سے ہجرت کی وجہ بہت ہی دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں:

"اس دردناک فضا میں یہ چیز قابلِ احترام ہے کہ اعلیٰ طبقے کے سندھی ہندو اپنے گھریلو کاموں میں اترپردیش کے نوکروں اور باورچیوں کے دستِ نگر تھے۔ ایک قدیم کانگریس کے کارکن سے جو سوسائٹی میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، میں نے کہا کہ آپ نہ جائیے، بلکہ یہیں رہ کر سندھ کے ہندوؤں کی رہنمائی اپنے ذمے لے کر اُن کی حفاظت کیجیے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب میرے تمام ملازمین جا رہے ہیں تو میں کیسے گزر کرسکتا ہوں؟ آخر میرا کھانا کون پکائے گا؟ میں نے پوچھا کہ آپ کی خواتین کھانا پکانا نہیں جانتی ہیں؟ اس سوال پر انہیں ایک اچنبھا سا ہوا اور خشم آلود لہجے میں کہا کہ کیا آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ ہماری خواتین کھانا پکائیں؟"

اس اقتباس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ نواب زادہ لیاقت علی خان کا مؤقف اپنی جگہ درست تھا، چاہے اخلاقی طور پر درست ہو یا نہ ہو۔ جب کسی ریاست کے چھوٹے کام کرنے والے لوگ اچانک چلے جائیں اور وہ ایک ایسا خلا پیدا کر جائیں جو پُر کرنا آسان نہ ہو تو پھر اُنہیں روکنے کے لیے آپ کو ”لازمی خدمات“ کا قانون ہی نافذ کرنا پڑے گا۔ اب یہ پی آئی اے کے ملازم ہوں، میونسپلٹی کے خاکروب یا کوئی اور۔

اس پورے واقعے سے اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نظریہء ہجرت جداگانہ تھا، مگر دونوں ہی طرف کے غرباء اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ہجرت کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ایک طرف قتلِ عام و غیر قانونی ذرائع سے، تو دوسری طرف ایک 'ایکٹ' نافذ کر کے۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔