نقطہ نظر

گرین لائن ٹرانسپورٹ منصوبہ

ایک ریپڈ بس روٹ شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں بنیادی تبدیلی نہیں لا سکتا، لیکن یہ ایک اہم پہلا قدم ہے۔

کراچی شہر کے باسیوں کی بہادری کی داد دینی چاہیے کیونکہ انہیں صدیوں پرانے ٹرانسپورٹ نظام پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ بسیں پرانی، حد سے زیادہ پرہجوم اور تعداد میں کم ہیں، اور بہت جارحانہ انداز میں چلائی جاتی ہیں۔ جبکہ کراچی سرکولر ریلوے کو 1999 میں بند کردیا گیا۔

شہر کی شاہراہوں سے ٹیکسیاں غائب ہوچکی ہیں اور عوام کی سفری ضروریات زیادہ تر رکشے ہی پوری کرتے ہیں۔

ایسی بدترین صورتحال میں جمعے کے روز وزیرِ اعظم کی جانب سے گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ پلان کا افتتاح امید کی کرن ہے۔

وفاقی حکومت کی مدد سے کئی ارب روپوں کی فنڈنگ سے تیار ہونے والا منصوبہ ہر روز شہر کے قلب میں ایک اہم روٹ پر 3 لاکھ لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرے گا۔

پڑھیے: کراچی میں گرین لائن ریپڈ بس سروس کا سنگ بنیاد

وزیرِ اعظم نے منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے خوشگوار الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ منصوبے کا نتیجہ ایک "روشن اور ترقی یافتہ" کراچی کی صورت میں برآمد ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ بیان اور یہ امید حقیقت کا روپ دھارے گی۔

یہ بات درست ہے کہ ایک ریپڈ بس روٹ شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں بنیادی تبدیلی نہیں لا سکتا، لیکن یہ ایک اہم پہلا قدم ہے۔ کراچی کو ایک جامع پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے جس میں بس روٹس اور سرکولر ریلوے شامل ہو، اور جو عوام کے لیے کم خرچ اور آرامدہ بھی ہو۔

کئی دہائیوں تک حکومتیں اس ہدف کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔ صوبائی حکومت نے اورنج لائن بس منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ منصوبے آپس میں ہم آہنگ ہوں گے، اور ان کے کوئی پوشیدہ مقاصد نہیں ہوں گے۔

اس کے علاوہ وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت کو ماہرین اور سول سوسائٹی سے مشورہ کرنا چاہیے تاکہ ایسا ٹرانسپورٹ نظام وضع کیا جائے جو کراچی اور اس کے شہریوں کے بہترین مفاد میں ہو۔

غلط انداز میں منصوبہ بندی اور تعمیر کی گئی اسکیمیں صرف مسائل میں اضافہ کریں گے، اور ان سے رش اور افراتفری بڑھے گی جو کہ کراچی کی ٹریفک کا خاصہ ہے۔

کراچی کے شہریوں سے ماضی میں ایک قابلِ عمل ٹرانسپورٹ نظام کی فراہمی کے کئی وعدے کیے گئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ حالیہ منصوبے کراچی کے شہریوں کو ایک محفوظ اور قابلِ عزت ٹرانسپورٹ اسی انداز میں فراہم کریں گے، جو کہ اتنے بڑے شہر کا حق ہے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 28 فروری 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ