جانے کس جرم کی سزا پائی ہے
حال ہی میں پاکستان کے نیوز چینلز پر ایک خبر گرم تھی کہ کوئٹہ کے علاقے مسلم باغ میں انٹرمیڈیٹ کی ایک جواں سال طالبہ نے امتحانی فارم نہ بھیجے جانے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔
ثاقبہ کاکڑ، جس نے میٹرک کے امتحانات میں پورے قلعہ سیف اللہ ضلعے میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، اسے اپنے حوصلے، اپنی بغاوت کی سزا ملی، وہ حوصلہ جس کا مظاہرہ اس نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کالج کی پرنسپل اور انتظامیہ کے خلاف احتجاج کر کے کیا تھا۔
انٹرنیٹ پر موجود مرحومہ کے انٹرویو کے مطابق مسلم باغ گورنمنٹ گرلز کالج میں گذشتہ کئی مہینوں سے خواتین اساتذہ کی عدم دستیابی اور سینیئر مرد اساتذہ کو جبری فارغ کیے جانے کے باعث تدریسی عمل معطل تھا، اور چھ ماہ کی مسلسل اذیت اور نارسائی کے بعد انہوں نے جون ۲۰۱۵ میں احتجاج کا راستہ بحالتِ مجبوری اختیار کیا تھا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ کالج میں کلاسیں تو دوبارہ شروع نہ ہوسکیں، البتہ ۱۲ طالبات کو ان کے جرم کی پاداش میں امتحانات میں بیٹھنے سے روک دیا گیا۔ ان کے والدین سمیت طالبات گڑگڑا کر معافیاں منگوائی گئیں اور آخرکار انہیں ان کی بے بس کی سزا دیتے ہوئے اس مقام پر لاکھڑا کیا جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
ویڈیو: داخلہ فارم نہ بھجوائے جانے پر طالبہ کی خودکشی
یہ اپنی طرز کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان کی تدریسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ طرفہ یہ کہ ہم سب ایسی خبروں کے عادی سے ہو چکے ہیں، سو کچھ کالم لکھ کر، کچھ دن شور مچا کر، چند آنسو بہا کر اور ایک عدد تحقیقاتی کمیٹی بنا کر گویا سب اپنے اپنے فرض سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک کہانی غور طلب ہے۔
گئے وقتوں کی بات ہے کہ ایک امیر کبیر شخص ایک عالیشان محل میں رہتا تھا۔ محل کے ساتھ ہی غریبوں کی ایک کچی بستی تھی جو اس کی آنکھ میں کھٹکتی رہتی تھی۔
ایک رات اس نے سوچا کہ کیوں نہ بستی کو آگ لگا دی جائے تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ رات گئے جب بستی کے مکین تھکے ہارے نیند کی وادیوں میں گم تھے، تو امیرزادے کی ایماء پر بستی کو آگ لگا دی گئی۔
امیرزادہ طاقت کے نشے میں چور، محل کی آبنوس کھڑکی سے جلتی بستی کا نظارہ کرتا رہا، اور پھر چین کی نیند سو گیا۔
ابھی اسے سوئے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ شور سے آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ بستی کی آگ پھیلتے پھیلتے محل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور اس کا گھر بھی جل رہا ہے۔
غور کیا جائے تو ہم میں سے بیشتر کی مثال اس کہانی کے امیرزادے جیسی ہے۔ یوں کہنے کو تو ہم اس مذہب کے داعی یں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا درس دیتا ہے، تاہم عملاً ہم میں سے بیشتر لوگ آنکھ و کان بند کر کے جینے کے اصول پر کارفرما نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھیں: خودکشی کرنیوالی طالبہ کا خط سامنے آگیا
"جانے دو، چھوڑو، اپنے کام سے کام رکھو، اپنا الو سیدھا کرو، پرائے جھگڑے میں ٹانگ مت اڑاؤ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، اور ایسے ہی ان گنت فقرے اور رویے ہم کم عمری سے ہی اپنے بچوں کی گھٹی میں ڈالتے رہتے ہین، گویا لاشعوری طور پر ہم اپنی نئی نسل کو خود غرضی، مفاد پرستی، اور بے حسی کا درس دیتے ہیں۔
ایسے حالات میں ثاقبہ جیسے حساس اور باضمیر نوجوانوں کے لیے زندگی تنگ نہ ہو، اور باغی کہہ کر انہیں تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم نہ کیا جائے، یہ کیسے ممکن ہے؟
ان رویوں کی ابتداء گھر سے ہوتی ہے، جہاں اپنوں سے بیگانگی کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔ جدید زندگی کی دوڑ نے ہمیں اس قدر غافل کر دیا ہے کہ گھر کے کسی فرد کی بیماری، نفسیاتی و ذہنی کیفیت، جذباتی الجھنوں وغیرہ کا اول تو کنبے کے افراد کو پتہ ہی نہیں چلتا، اور جب تک پتہ چلتا ہے، تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال ان دو کم عمر بچوں کی خودکشی تھی جنہوں نے پچھلے سال اپنے ہی والد کی پستول سے خود کو کراچی کے ایک اسکول میں "محبت میں ناکامی" پر ختم کر لیا تھا۔
موت سے ایک دن قبل لڑکے نے اپنی خودکشی کے حوالے سے اپنے دوستوں کو فیس بک پر آگاہ بھی کر دیا تھا، مگر اسے محض ہرزہ سرائی سمجھا گیا، اور نتیجتاً دو معصوم زندگیاں اپنی جان سے گئیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ والدین، اساتذہ، طلباء اور انتظامیہ معاشرے کی اکائیاں ہوتی ہیں، تاہم اپنے اپنے دائرہ کار میں یہ اکائیاں اپنے فرائض سے غفلت برتنے کی مجرم ہیں، اور جب ان کے اس جرم پر آواز اٹھائی جاتی ہے تو انہیں یا تو خود راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے، یا ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ جرائم کے خلاف مزاحم افراد خود ہی راستے سے ہٹ جانے میں عافیت جانیں، اور یہی ثاقبہ کاکڑ کے واقعے میں ہوا۔
جانیے: دو بچوں کی 'خود کشی' کا ذمہ دار کون؟
من حیث القوم ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بات تو کرتے ہیں، مگر بحیثیتِ فرد اس پر عمل کرنے والوں، خصوصاً نوجوانوں کو باغی، اشتعال پسند اور قابلِ تعزیر ٹھہراتے ہیں۔
ثاقبہ کاکڑ ایک ایسی ہی معصوم باغی تھی، جو اپنی حق گوئی کی پاداش میں تعلیم سے وابستہ کچھ نااہل اور کم ظرف لوگوں کی اناپرستی کی بھینٹ چڑھ گئی۔
آج اگر ہمیں خود کو، اپنے بچوں کو اور اپنے پیاروں کو بچانا ہے، تو اپنے اداروں، محلوں، گھروں، اور معاشرے میں بھڑکتی سماجی ناانصافی اور عدم برداشت کی آگ سے منہ نہیں پھیرنا چاہیے۔
ورنہ ایسے کئی واقعات آنے والے دنوں میں بھی ہمارا منہ چڑاتے رہیں گے، اور ہم ایک بار پھر چند دن رو دھو کر چپ کر جانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکیں گے۔
ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس hafeezerum144@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔