70 لاکھ کا فائر
گاؤں میں بہت چہل پہل تھی۔ کافی دنوں سے بعض مقامی افراد، بشمول محکمہ جنگلی حیات کے سرکاری ملازمین، بڑی بڑی دوربینیں لیے ارد گرد موجود پہاڑوں کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہلکی برفباری کے بعد پہاڑوں کا رنگ گندمی اور سیاہ سے سفید ہو چکا تھا۔ جا بجا ہلکی لکیریں بنی نظر آتی تھیں۔
ان علاقوں میں پہاڑوں سے پتھروں کا گرنا معمول کی بات ہے۔ کبھی کبھار بڑے پتھروں اور زمینی تودوں کے گرنے سے کافی تباہی بھی ہوتی ہے۔ لیکن آج جو پتھر گر رہے تھے ان کا حجم اتنا بڑا نہیں تھا۔ برف پوش پہاڑ پر پتھر گرنے کی وجہ سے ہلکی سی اور آڑھی ترچھی کالی لکیر بنتی جارہی تھی، اور ہلکی پھلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز آتی تھی۔ عموماً یہ چھوٹے پتھر مارخوروں، بلیو شپ یا آئی بیکس کے چلنے کی وجہ سے گرتے ہیں۔ شاید پہاڑی بکروں کا کوئی ریوڑ قریب ہی موجود تھا۔
دوربین بدست افراد پہاڑ پر چلنے والے مارخوروں اور دیگر پہاڑی حیات کی ریکی کر رہے تھے۔ خبر گرم تھی کہ بدیسی شکاری آئیں گے، شکار کریں گے اور مارخور کی سینگ لے کر چلتے بنیں گے، جبکہ گوشت، اگر وہ چاہے تو، اور ہزاروں ڈالرز یقینی طور پر مقامی تنظیم کو دیں گے۔ حکومت کے خزانے میں بھی کافی پیسے جمع ہوں گے۔ لوگ خوش تھے۔
اور پھر وہ دن آ ہی گیا۔ فوجی کمانڈوز کی طرح لباس پہنے شکاری پہنچ گئے۔ ان کے پاس ایک بڑی سی بندوق تھی۔ شکار کے لیے مخصوص بندوق کو ایک مقدس شے کی طرح اُٹھا کر ایک مقامی شخص کے حوالے کیا گیا۔ پہلے سے متعین شدہ بعض مقامی افراد اور چند سرکاری اہلکاروں کے ساتھ یہ شکاری حضرات آبادی سے دور پہاڑ پر واقع اس مقام کی طرف چل پڑے جہاں کچھ وقت پہلے تک مارخوروں کا ایک جھُنڈ دوربین بدست افراد دیکھ چکے تھے۔
چند گھنٹے گزر گئے۔ اور پھر فائر کی آواز آئی۔ چھتوں پر بیٹھے اور شاہراہ قراقرم پر کھڑے لوگوں نے ایک بھورے دھبے جیسی شے کو برف کی سفیدی پر گرتے دیکھا۔ 47 انچ سینگ (ٹرافی) والا آئی بیکس شکار ہو چکا تھا۔
ایک ہلکی پھلکی تقریب منعقد کی گئی، جس میں شکاری کی خوب تعریفیں ہوئیں۔ مقامی آبادی کے نمائندوں کو ’سرکاری اہلکاروں کی موجودگی میں ان کے علاقے میں ٹرافی ہنٹنگ‘ کے عوض پیسے دیے گئے۔ آئی بیکس شکار کرنے کے عوض غیر ملکیوں کو ہزاروں امریکی ڈالرز دینے پڑتے ہیں، جبکہ ملکی اور مقامی شکاریوں کو رعایتی قیمت پر شکار کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں شکار کے بعد جشن کا سماں ہوتا ہے، اور نوجوان شکار شدہ جانور کے ساتھ سیلفیاں لے لے کر فیس بُک پر پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں۔
پڑھیے: ایک کروڑ روپے میں مارخور کا شکار
چند دنوں میں مزید کچھ شکاری آرہے تھے لہٰذا دور بین بدست افراد شکار کی ریکی کرنے کے لیے دوبارہ پہاڑوں کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگ گئے۔
یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری و ساری ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹرافی ہنٹنگ ہوتی ہے۔ زیادہ ترشکاری امریکا اور یورپ کے مختلف ممالک سے آتے ہیں، لیکن آج کل مقامی اور ملکی شکاریوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس عمل میں شریک ہو چکی ہے۔ چترال، استور، گلگت، ہنزہ، نگر اور دیگر علاقوں میں ٹرافی ہنٹنگ معمول ہے۔
ہر سال سرکاری سطح پر شکار کے لیے لائسنس کی نیلامی ہوتی ہے، بولی لگائی جاتی ہے، شکار کے عوض حاصل شدہ رقم کا 80 فیصد حصہ جائے شکار کے قرب و جوار میں رہنے والے مقامی افراد کو ملتا ہے، جبکہ 20 فیصد حصہ سرکاری خزانے میں جمع ہوجاتا ہے۔ جانور جتنا نایاب ہو، اُتنی ہی زیادہ اسے شکار کرنے کی قیمت ہوتی ہے۔ بڑی تعداد میں پائے جانے والے جانوروں، مثلاً بلیو شیپ، کی فیس نسبتا کم ہوتی ہے۔
لوگوں کی ایک کافی بڑی تعداد اس سارے عمل کو ناجائز، عقل سے عاری اور بے وجہ خونریزی سمجھتی ہے۔ ان کے مطابق انسانوں کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ محض تفریح طبع کے لیے جانوروں کو گولیوں سے بھونتے پھریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح اگر نایاب جانوروں کا شکار جاری رہا تو جلد یا بدیر ان کی نسلیں ختم ہو جائیں گی۔
دوسرے طبقے کا، جس میں بقائے جنگلی حیات کے ماہرین اور محکمہ جنگلی حیات کے سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں، ماننا ہے کہ منظم، محدود پیمانے اور قانونی طور پر شکار کرنے سے ان جانوروں کی نسل کشی کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے، اور شکار کو لائسنس کے حصول سے مشروط کرنے اور بغیر لائسنس شکار کو قابلِ تعزیر جرم بنانے سے نہ صرف نایاب جانوروں کی نسل کشی روکنے میں مدد ملی ہے، بلکہ بعض مقامات پر ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
مزید پڑھیے: عرب شہزادوں کا شکار: 'خارجہ پالیسی کا اہم ستون‘
پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ضلع ہنزہ کے بالائی علاقے گوجال میں واقع خیبر نامی گاؤں کے باسی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ مقامی افراد، جن سے میری بات چیت ہوئی، نے بتایا کہ ماضی قریب تک ان کے گاؤں میں مارخور، بلیو شیپ، آئی بیکس وغیرہ بے تحاشا شکار کی وجہ سے ناپید ہوتے جا رہے تھے اور کوئی بھی شخص جا کر ان جانوروں کا شکار کر سکتا تھا۔ زیادہ تعداد میں شکار کرنے والے کو علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اسی وجہ سے یہ نایاب جانور انسانی آبادیوں سے دور بھاگتے تھے۔
بعد میں شکار پر پابندی لگادی گئی، اور اس کے عوض ٹرافی ہنٹنگ کا نظام رائج کیا گیا۔ مقامی آبادی کی ٹرافی ہنٹنگ میں دلچسپی کی اہم وجہ یہ ہے کہ انہیں کافی رقم ہاتھ آجاتی ہے، جسے اجتماعی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اب خیبر نامی گاؤں میں یہ عالم ہے کہ آئی بیکس اور دیگر نایاب جانور مقامی لوگوں کے مویشیوں کے ساتھ انسانی آبادی تک پہنچ جاتے ہیں، بلا خوف و خطر چرتے ہیں، اور بلکہ بعض اوقات مقامی لوگوں کے کھیتوں اور کھلیانوں میں گھس کر ان کا نقصان بھی کر جاتے ہیں، اور پھر بلندیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ خیبر کے باسیوں نے ٹرافی ہنٹنگ کے عوض حاصل شدہ رقم سے اپنے علاقے میں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام شرو ع کر رکھا ہے۔
خیبر کے نزدیک واقع مورخون نامی گاؤں اور قرب و جوار کے دیگر دیہات کے افراد نے بھی ٹرافی ہنٹنگ کی مد میں حاصل شدہ رقم سے بچوں کی تعلیم و تربیت کا نظام رائج کیا ہوا ہے۔ خنجراب ویلی آرگنائزیشن نامی فلاحی تنظیم کی سرکردگی میں ٹرافی ہنٹنگ سے ملنے والی اجتماعی آمدنی کو گاؤں سے شہروں میں جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سعی کرنے والوں کے لیے ہاسٹلز قائم کرنے کے لیے خرچ کیا جارہا ہے، اور بہت سارے بچوں کو اسکالر شپس بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
محکمہء جنگلی حیات کے مقامی ملازم شبیر احمد نے کہا کہ ’’ماضی میں مقامی لوگ بہت زیادہ شکار کرتے تھے۔ بڑے بڑے نامور شکاری ہر گاؤں میں پائے جاتے تھے۔ اُس دور میں شکار کا مقصد خوراک کا حصول ہوتا تھا۔ شکار شدہ جانور کے سینگ گھر کے اندر یا باہر نصب کیے جاتے تھے، لیکن اس دور میں شکار کا فائدہ محض ایک خاندان یا ایک گھرانے کو ہوتا تھا۔ آج کل صورتحال مختلف ہے۔ اب اگر کسی گاؤں میں شکار ہو تو تمام لوگوں کو فائدہ ملتا ہے۔‘‘
پڑھیے: شکار کوئی قابلِ تعریف چیز نہیں!
انہوں نے بتایا کہ 2015 کے اواخر سے لے کر اب تک ٹرافی ہنٹنگ قوانین کے تحت 27 قیمتی جانوروں کا صرف بالائی ہنزہ (گوجال) میں شکار کیا گیا ہے۔
محکمہء جنگلی حیات گلگت بلتستان کے مطابق ایک مربوط نظام کے تحت پوری احتیاط کے ساتھ ٹرافی ہنٹنگ کے لیے جانور کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ صرف ایسے جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے جو قریب المرگ ہوں، اور جن کی تولیدی صلاحیت ختم ہو چکی ہو۔ نیز کسی بھی شکاری کو منتخب شدہ جانور پر صرف ایک بار فائر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اگر پہلا فائر جانور کو نہیں لگا، تو پھر شکاری کے ساتھ موجود سرکاری ملازمین اور علاقے کے مکین یقینی بناتے ہیں کہ دوسری گولی نہ چلے۔ اور اگر جانور زخمی ہو کر بھاگ جائے تو شکاری کو پیسے واپس بھی نہیں ملتے۔
محکمہء جنگلی حیات کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ پالیسی کے مطابق کمیونٹی کو اس بات پر راغب کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ کی مد میں حاصل شدہ رقم کا ایک حصہ جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں شعور کی آگاہی کے لیے خرچ کیا جائے۔
ٹرافی ہنٹنگ کوئی سستا کھیل نہیں ہے۔ ایک جانور شکار کرنے کے لیے لاکھوں روپے چاہیے ہوتے ہیں۔ مارخور، جو ہمارا قومی جانور بھی ہے، کا شکار کرنے کے لیے غیر ملکیوں کو کم از کم 67 لاکھ روپے دے کر لائسنس خریدنا پڑتا ہے۔ مہنگا ہونے کی وجہ سے بہت محدود تعداد میں ہی شکار کے شوقین افراد اس کھیل میں شریک ہو سکتے ہیں۔
ہر سال حکومت شکاریوں کے لیے لائسنس فیس مقرر کرتی ہے۔ فیس ادا کیے بغیر شکار کرنا غیر قانونی عمل ہے۔ قانون توڑنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہیں۔ چند دن پہلے ہی گلگت میں ایک عدالت نے غیر قانونی شکار کرنے کے دو مختلف واقعات میں ملوث پانچ افراد کو چھ چھ ماہ قید اور لاکھوں روپے جرمانے کی سزا دی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل شدہ رقم کو استعمال میں لا کر اجتماعی فلاح کے منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال بہرحال قائم رہے گا کہ کیا انسان کو یہ اختیار ہے کہ بعض جانوروں کو محض اپنی تفریح طبع کے لیے پیسے دے کر، لائسنس خرید کر، گولیوں سے بھون کر رکھ دے؟
جانیے: سعودی شہزادہ اور 2100 تلور کا شکار
کیونکہ بہرحال جو لوگ شکار کرنے کے لیے آتے ہیں، ان کے ذہن میں نہ علاقے کی ترقی ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں شکار کے گوشت سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ انہیں تو صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑے سینگوں والے جانور کو گرا دیا جائے تاکہ اس کے سینگ گھر میں لٹکا کر دوسروں پر رعب جمایا جا سکے۔
محکمہء جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ کا نظام رائج کرنے سے غیر قانونی شکار میں کمی آئی ہے، تو یہاں پر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جانوروں کی نسلی بقاء کے لیے انہی میں سے بعض عمر رسیدہ بدقسمتوں کا کسی مالدار شکاری کے ہاتھوں قتل ہونا اور کسی ڈرائنگ روم یا بنگلے کی زینت بننا ناگزیر ہے؟
آمدنی کا ذریعہ صرف شکار ہی کیوں۔ کیا ٹورازم اور سفاری جیسے آپشن بالکل موجود نہیں؟
نور پامیری گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک بین الاقوامی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں۔ بلاگز لکھتے ہیں اور تصویریں بنانے کا شوق ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: noorpamiri@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔