الطاف کیس:عاصمہ جہانگیرکا تحریری معافی سے انکار
لاہور: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کی میڈیا کوریج پر پابندی کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت کیس میں عاصمہ جہانگیر کی جانب سے تحریری معافی سے انکار کے باعث ڈیڈلاک پیدا ہوگیا۔
واضح رہے کہ 7 ستمبر 2015 کو لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں الطاف حسین کے تقاریر اور خطاب نشر کرنے پر مکمل پابندی عائد کی تھی۔
قائد ایم کیو ایم کی میڈیا پابندی کے خلاف کیس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکلا نے الزام لگایا کہ ایم کیو ایم کی وکیل ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر نے ٹی وی پروگرام کے دوران عدالتی فیصلے کے خلاف توہین آمیز بیان دیا۔
ایڈووکیٹ اظہر صدیقی اور آفتاب ورک نے عدالت میں اس ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ بھی چلائی۔
انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر آئے روز عدالتی احکامات کے خلاف بات کرتی ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے عدالت کی جانب سے وضاحت طلب کرنے پر اپنے الفاظ پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے زبانی معافی مانگی۔
فل بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس سید مظہر علی نقوی نے عاصمہ جہانگیر کو تحریری معافی نامہ جمع کرانے کو کہا، جس پر انہوں نے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی حکم کو دل سے قبول نہیں کرتیں جبکہ انہوں نے صرف عدالتی وقار قائم رکھنے کے لیے زبانی معافی مانگی، انہوں نے بینچ پر عدم اعتماد کا بھی اظہار کیا۔
آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس مظہر علی نقوی نے عاصمہ جہانگیر سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا معیار دہرا ہے، آپ توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہیں اس لیے آپ کو تحریری معافی مانگنی چاہیے، تاہم عاصمہ جہانگیر نے ایک بار پھر عدالتی حکم ماننے سے انکار کردیا۔
اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر پیر مسعود چشتی نے جسٹس مظہر علی نقوی کو کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی۔
عدالتی کارروائی کے دوران ایک موقع پر جسٹس مظہر علی نقوی نے ایم کیو ایم کے سینیٹر عتیق الرحمٰن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ احتجاج اور بھوک ہڑتالوں سے عدالت پر کوئی اثر پڑے گا۔
عاصمہ جہانگیر کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے یہ کیس کسی دوسرے جج کو منتقل کرنے کی درخواست کریں گی۔
یہ خبر 27 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔