نقطہ نظر

سوات کیپ ہاؤس، ایک عہد ساز ادارہ

اس دکان کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان، صدر ایوب خان اور ملکہء برطانیہ الزبتھ دوئم کے لیے تحائف تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

سوات کیپ ہاؤس، ایک عہد ساز ادارہ

امجد علی سحاب

مینگورہ شہرمیں سوات کیپ ہاؤس کے نام سے قائم ایک چھوٹی سی دکان میں کبھی ریاست سوات کی پوری فوج، سپاہیوں اور سڑکیوں کی وردیاں، ٹوپیاں، رینکس اور بیجز وغیرہ تیار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں سابق وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان، سابق صدر ایوب خان، انگلستان کی ملکہ الزبتھ دوئم سمیت دیگر ریاستی مہمانوں اور نواب دیر و ہنزہ کے لیے تحائف بھی تیار ہوتے تھے۔

1950 کی دہائی میں ریاست دیر اور چترال کی الگ الگ ٹوپیاں تھیں جن کی وجہ سے مذکورہ ریاستوں کے باسیوں کی پہچان باآسانی ہوا کرتی تھی۔ 1949 میں والیء سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب (1987-1908) کی رسمِ تاج پوشی ادا کی گئی۔ تخت پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ سوات کی بھی اپنی ایک الگ ٹوپی ہونی چاہیے جو آگے چل کر ریاست سوات کے باسیوں کی پہچان بنے۔

اس حوالے سے سوات کیپ ہاؤس کے روح رواں ملک اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ’’والیء سوات نے یہ ذمہ داری میرے والد ملک فضل کریم جان (مرحوم) کو سونپ دی۔ بعد میں والیء سوات کے مشورے سے ایک ڈیزائن باقاعدہ طور پر ’سواتی ٹوپی‘ کی شکل اختیار کر گیا جسے یہاں عرفِ عام میں ’گراری پکول‘ کہتے ہیں۔ والیء سوات کی تاج پوشی کے اک آدھ سال بعد سواتی ٹوپی تیار کی گئی جسے پہننے میں آج تک اہل سوات خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔‘‘

سوات کیپ ہاؤس مینگورہ شہر کے جی ٹی روڈ علاقے میں واقع ہے۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔
سواتی ٹوپی۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔
سواتی قراقلی، جسے جناح کیپ بھی کہتے ہیں۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔

سواتی ٹوپی کو اپنے منفرد ڈیزائن کی وجہ سے نہ صرف سوات بلکہ ملک کے ہر حصے میں پسند کیا جاتا ہے۔ اس مخصوص ڈیزائن کا اولین خیال کیسے آیا۔ ملک اورنگزیب کے مطابق ’’سوات کیپ ہاؤس میں کام کرنے والے ہمارے ایک واقف کار چچا خورشید نے مینگورہ شہر میں راہ چلتے کسی شخص کے سر پر ایک ٹوپی دیکھی جس میں سلوٹ سی بنی ہوئی تھی۔ چچا اُسے ہاتھ سے پکڑ کر دکان لے آئے اور میرے والد ملک فضل کریم جان (مرحوم) سے کہا کہ یہ ٹوپی کیسی ہے؟ والد نے ٹوپی دیکھی اور مسکرا کر کہا کہ مجھے آئیڈیا مل گیا۔ اب ریاست سوات کی نمائندہ ٹوپی بنے گی۔‘‘

سواتی ٹوپی کے علاوہ قراقلی کی سواتی قسم اور سواتی پی کیپ بھی سوات کیپ ہاؤس میں تاحال تیار ہوتے ہیں۔ جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود (1971-1881) قراقلی پہننا پسند کرتے تھے۔ والیء سوات کی تاج پوشی کے بعد ان کے مشورے سے ملک فضل کریم جان (مرحوم) نے قراقلی میں معمولی رد و بدل کی۔ دو تین بار کوشش کرنے کے بعد سوات کی نمائندہ قراقلی بھی تیار ہوئی۔ قراقلی کو جناح کیپ بھی کہتے ہیں۔

سواتی ٹوپی ہر رنگ میں اور گاہکوں کی خواہش کے مطابق تیار کی جاتی ہے۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔
دائیں سے بائیں: سواتی پی کیپ، سواتی ٹوپی (گراری پکول)، اور سواتی قراقلی (جناح کیپ)۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔

اس طرح سواتی پی کیپ کے حوالے سے محمد نواز (ملک کریم جان مرحوم کے پوتے) کا کہنا تھا کہ: ’’ایک دفعہ والیء سوات انگلستان سے پی کیپ لائے اور میرے دادا کو دکھاتے ہوئے کہنے لگے کہ اس میں تھوڑی سی رد و بدل کریں، تاکہ سوات کی اپنی پی کیپ متعارف کروائی جاسکے۔ ٹوپی تیار ہوئی تو والیء سوات نے اس کی قیمت 14 روپے رکھی۔

"دادا مرحوم نے ان سے شکوہ کیا کہ انگلستانی ٹوپی 50 کی خریدی جبکہ سوات والی کی قیمت محض 14 روپے ادا کر رہے ہیں؟ والیء سوات نے جواباً کہا کہ 14 روپے سواتی پی کیپ کی مناسب قیمت ہے تاکہ ہر خاص و عام اسے باآسانی خرید سکے۔‘‘

ریاست سوات (1969-1917) کا جھنڈا بھی ملک فضل کریم جان (مرحوم) نے تیار کیا تھا۔ ملک اورنگزیب کے مطابق ’’ریاست سوات کا جھنڈا میرے والد نے ڈیزائن کیا تھا اور جھنڈے کے اوپر سوات کا قلعہ میری والدہ اپنے ہاتھوں سے نقش کرتی تھیں۔ نیز ریاست کی آرمی، پولیس اور سڑکیوں کی وردیاں اور ان سے متعلق مختلف اشیاء یعنی ٹوپی، بیج اور رینک وغیرہ کی تیاری بھی ہمارے حوالے تھی۔‘‘

ریاستی دور کے بیج وغیرہ کے لیے ہاتھوں سے بنائے گئے ڈائیز۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔
ریاستی دور کے فوجی رینکس۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔
سوات کی ریاست کے فوجی بیجز۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔

جب 1949 میں والیء سوات تخت پر بیٹھ گئے، تو انہوں نے ریاست کی دستکاری کے کام کے حوالے سے ایک کاریگر کو ہندوستان سے بلوایا۔ ملک اورنگزیب کے مطابق ’’اس ہندوستانی کاریگر سے کچھ کام میرے دادا (ملک عبدالمالک مرحوم) سیکھ گئے، باقی ماندہ کام کے لیے اس نے والیء سوات سے درخواست کی کہ اگر فضل کریم جان (میرے والد) اس کی شاگردی اختیار کرلے، تو بہتر ہوگا۔ یوں میرے والد نے ان سے کافی کام سیکھا۔‘‘

والیء سوات مذکورہ ہنر مند خاندان سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ملک اورنگزیب کہتے ہیں: ’’1949 میں جب وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان والیء سوات کی تاج پوشی کے سلسلے میں سوات آئے تھے، تو میرے والد ملک فضل کریم جان نے ایک قراقلی ٹوپی اور چوغہ تیار کر کے ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ ملکہ الزبتھ دوئم جب 1961 میں سوات آئیں، تو والیء سوات نے میرے والد کو حکم دیا کہ ملکہ کے لیے ٹوپی کے ساتھ ایک عدد پرس بھی تیار کیا جائے۔ اس وقت تیار ہونے والے پرس کے دو تین ڈیزائن اب بھی ہمارے ساتھ موجود ہیں۔‘‘

ملکہء برطانیہ الزبتھ دوئم کے لیے تیار کردہ پرس کا نمونہ۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔
والیء سوات کے حکم پر ملکہ الزبتھ دوئم کے لیے پرس تیار کیے گئے تھے۔ — فوٹو امجد علی سحاب۔

ملک اورنگزیب نے اپنی یادوں کو بازیافت کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا کہ ’’ایک دن پاکستان کے سابق صدر ایوب خان، والیء سوات کے ساتھ مینگورہ کی سیر کو نکلے تھے۔ وہ جیسے ہی سوات کیپ ہاؤس کے سامنے سے گزر رہے تھے، تو انہوں نے گاڑی روکنے کا حکم دیا۔ گاڑی سے اترے اور میرے والد کا شکریہ ادا کرنے بطور خاص ہماری دکان تشریف لائے۔ انہوں نے مصافحہ کرتے وقت میرے والد سے کہا تھا کہ تم میرا کام تسلی بخش کیا کرتے ہو، اس لیے آج میں شکریہ ادا کرنے بنفسِ نفیس حاضر ہوا۔‘‘

صدر ایوب خان جب بھی سوات تشریف لاتے، تو والیء سوات کے حکم کے مطابق چار سواتی قراقلی ٹوپیاں تیار کی جاتی تھیں۔ دو ٹوپیاں صدر ایوب خان کی خدمت میں پیش کی جاتی تھیں، باقی دو میں سے ایک ان کے ملٹری سکریٹری اور دوسری ان کے ڈاکٹر کی ہوا کرتی تھی۔

1969 میں جب ریاست سوات پاکستان میں ضم ہوئی تو اس کے بعد ریاست سوات کی فوج، سپاہیوں اور سڑکیوں سے متعلق کام ختم ہوگیا، لیکن سوات کیپ ہاؤس میں سواتی پی کیپ، سواتی ٹوپی اور سواتی قراقلی اب بھی تیار ہوتی ہے اور مذکورہ ہنرمند خاندان کی تیسری نسل اب اس کام سے وابستہ ہے۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔