پاکستان

لڑکیاں مجھ سے متاثر ہیں، قندیل بلوچ

پاکستان میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی آمد اور اسمارٹ فونز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود پاکستانی نوجوان کشمکش کا شکار ہیں۔

اسلام آباد: حالیہ برسوں میں پاکستان میں 3G اور 4G ٹیکنالوجی کی آمد اور اسمارٹ فونز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث جہاں سوشل میڈیا کے استعمال میں تیزی آئی ہے، وہیں پاکستانی نوجوان کچھ عجیب سی کشمکش کا بھی شکار ہیں.

ایک طرف جہاں نوجوان آزادی کے ساتھ آن لائن روابط برقرار رکھ سکتے ہیں وہیں وہ مذہبی پابندیوں اور خاندانی دباؤ کا بھی سامنا کر رہے ہیں، مثال کے طور پر 'ڈک فیس سیلفی' جو مغربی نوجوانوں میں بہت مقبول ہے، یہاں بعض اوقات مسائل کھڑے کردیتی ہے.

قندیل بلوچ—۔

لیکن 18 کروڑ آبادی کے اس ملک میں، جہاں کی دو چوتھائی آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے، قندیل بلوچ جیسے نوجوان بھی موجود ہیں، جو اپنی 'انتھک محنت' اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی 'سیلفیز' کی بدولت ہزاروں کی تعداد میں فالوورز بنانے میں کامیاب ہوگئی ہیں.

حالیہ 'ویلنٹائنز ڈے' پر بھی سوشل میڈیا پر قندیل بلوچ کے ایک ویڈیو پیغام کی دھوم تھی، جس میں وہ سرخ لباس پہنے 'ویلنٹانئز ڈے' کے خلاف بیان دینے پر صدرِ پاکستان ممنون حسین کی 'کلاس' لیتے ہوئی نظر آئیں.

واضح رہے کہ صدر ممنون حسین نے 'ویلنٹائنز ڈے' کو اسلامی اقدار سے منافی اور مغربی تہوار قرار دے کر اسے منانے کی مخالفت کی تھی.

کچھ لوگ انٹرنیٹ پر قندیل بلوچ کی تصاویر سرچ کر رہے ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی

مذکورہ ویڈیو پیغام میں قندیل نے سیاستدانوں کو 'بیوقوف' کہتے ہوئے واضح کیا کہ، 'وہ لوگوں کو باہر جانے سے روک سکتے ہیں، لیکن انھیں محبت کرنے سے نہیں روک سکتے'.

اگرچہ قندیل بلوچ کو پسند کرنے والوں اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد تقریبآ برابر ہی ہے لیکن ان کے اس پیغام کو ان نوجوانوں نے بھی اپنے دل کی آواز سمجھا، جو اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنا چاہتے ہیں لیکن انھیں ہر وقت یہی بتایا جاتا ہے کہ انھیں زندگی کیسے گزارنی چاہیے.

یہی وجہ ہے کہ اس ویڈیو کو نہ صرف 830,000 مرتبہ دیکھا گیا بلکہ ویڈیو کو 7 ہزار لائیکس بھی ملے.

قندیل کو پاکستان میں 2014 میں اُس وقت شہرت ملی جب ان کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی، جس میں وہ سوال کرتی ہوئی نظر آئیں، 'میں کیسی لگ رہی ہوں؟'

قندیل نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کہا، 'لوگ، خصوصآ لڑکیاں بہت پرجوش ہیں، مجھے بے شمار کالز موصول ہوتی ہیں، جن میں مجھے بتایا جاتا ہے کہ وہ مجھ سے متاثر ہیں اور مجھ جیسا بننا چاہتی ہیں'.

تم کیوں مسکرا رہی ہو؟

اسلام آباد کے ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم ایک 15 سالہ لڑکی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے موبائل فون پر بہت سی سیلفیز لیتی ہے لیکن وہ انھیں اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اَپ لوڈ نہیں کرسکتی کیونکہ لوگ آپ کے بارے میں خود سے اندازے لگانا شروع کردیتے ہیں.

مذکورہ لڑکی کا کہنا تھا، 'آپ اپنے دوستوں کے ساتھ تصاویر پوسٹ نہیں کرسکتے کیوں کہ پھر رشتے دار یا اساتذہ آپ پر تنقید شروع کردیں گے اور کہیں گے، 'تم بہت عجیب لگ رہی ہو، تم مسکرا کیوں رہی ہو؟'

اسلام آباد میں مارگلہ ہلز کے قریب کچھ لڑکیاں سیلفی لے رہی ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی

'یہی وجہ ہے کہ اب میں شاذونادر ہی اپنی پروفائل تصویر تبدیل کرتی ہوں، جب میں نے سوشل میڈیا استعمال کرنا شروع کیا تھا تو مجھے لگتا تھا میں وہ خوبصورت لڑکی ہوں گی، جس کے بہت سارے آن لائن دوست ہوں گے، لیکن میں ایک بہت عجیب لڑکی ہوں جس کے صرف 5 دوست ہیں.'

مذکورہ لڑکی کے دیگر ہم جماعتوں کے پاس بھی اسی قسم کی کچھ کہانیاں تھیں، جہاں نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں نے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا.

مذکورہ لڑکی کے مطابق 'جب میں اپنی تصاویر پوسٹ کرتی ہوں تو مجھے کچھ فضول قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو فضول قسم کی تصاویر اور پیغامات بھیجتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب میں لڑکوں سے آن لائن بات نہیں کرتی'.

عمومآ پوری دنیا میں خواتین کو آن لائن پیش آنے والے مسائل کا حل قانونی طریقے سے ڈھونڈا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں نوعمر لڑکیوں کو اس حوالے سے بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان کی آن لائن سرگرمیوں کو بعض اوقات خاندانی اقدار کے منافی تصور کیا جاتا ہے یا پھر اسے عزت و غیرت کا مسئلہ بنالیا جاتا ہے.

ایک نوعمر لڑکے نے مذکورہ لڑکی کی بات سے اتفاق کیا اور کہا، 'مجھے سیلفیز پسند نہیں اور یہ لڑکیوں کے لیے محفوظ بھی نہیں کیوں کہ اس سے بہت سے لڑکے ان کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں'.

ایک 14 سالہ لڑکے نے، جسے ایک لڑکی کے ساتھ تصویر پوسٹ کرنے پر رشتے داروں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، کا کہنا تھا، 'ہم ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہیں اور لوگ آپ کے بارے میں اس حوالے سے اندازے لگانا شروع کردیتے ہیں کیوں کہ اسلام خواتین کے جسم کے حصوں کو ظاہر کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اور نہ ہی اسلام لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے'.

صرف معاشرہ قصوروار نہیں

ایک 13 سالہ لڑکے کا کہنا تھا کہ سائبر اسپیس معاشرے کے اصول و قوانین کو الٹ پلٹ سکتا ہے.

ایک اور 15 سالہ لڑکی کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نے اظہارِ رائے کا ایک منفرد پلیٹ فارم عطا کیا ہے، 'یہ ہمارے لیے مفید ہے، یہ ہماری اپنی شناخت ہے. اسکول میں آپ اپنے دل کی بات نہیں کرسکتے، لیکن سوشل میڈیا پر آپ وہ کچھ کہہ سکتے ہیں جو آپ پسند کرتے ہیں، آپ وہاں اپنی شناخت خود ہوتے ہیں'.

راولپنڈی میں میڈیکل کی ایک طالبہ سڑک پر موبائل فون استعمال کرتے ہوئے—۔فوٹو/ اے ایف پی

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کچھ نوعمروں نے بتایا کہ وہ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنی شناخت چھپانے اور کھل کر اظہارِ رائے کے لیے فرضی پروفائلز کا استعمال کرتے ہیں.

ایک لڑکی کا کہنا تھا، 'ایک مسلم معاشرے میں لڑکوں سے براہ راست بات کرنا مشکل ہے لہذا لڑکیاں آن لائن بات کرتی ہیں ، لیکن یہ بہت رسک والی بات ہے کیوں کہ زیادہ تر لوگوں کے اکاؤنٹس جعلی ہوتے ہیں.'

اپنی تصاویر پوسٹ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنے والی مذکورہ 15 سالہ لڑکی نے اپنے ہم عمروں کو پاکستانی ثقافتی پابندیوں کے پیچھے چھپنے کے بجائے مزید پر اعتماد ہونے کا مشورہ دیا.

ان کا کہنا تھا، 'آپ ہر چیز کے لیے معاشرے کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے، آپ اپنی ساری نوعمری کی زندگی نقاب کے پیچھے اور کچھ نہ کرکے نہیں گزار سکتے، آپ سوشل میڈیا پر بھی کچھ نہ کچھ کرسکتے ہیں.'


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔