نقطہ نظر

'آپ کو یورپ کا ویزا نہیں مل سکتا'

میری سمجھ سے باہر تھا کہ ایک تحقیقی دورے پر جانے کے لیے ویزا کیوں نہیں مل سکتا؟

میں 2008 میں کمپیوٹر انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے آسٹریا گیا تھا۔ اس وقت مجھے شینگن ویزا (26 یورپی ممالک کا ویزا) کسی قسم کی پریشانی کے بغیر مل گیا تھا۔

آسٹریا میں میرا پانچ سالہ قیام قیمتی یادوں کے ساتھ ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔

یورپ میں قیام کے دوران میں نے بہت سے ملکوں میں سائنسی تقاریب میں شرکت کی۔ ان ممالک میں فرانس، جرمنی، اسپین، اٹلی، سلووینیا، ہنگری اور دیگر شامل ہیں۔

یورپ میں مجھے کسی قسم کے نسلی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مجھے کبھی ایسا باور نہیں کروایا گیا کہ جیسے میں غیر ملکی ہوں۔

میری بیوی اور دو سالہ بیٹی بھی میرے کچھ دوروں کے دوران میرے ساتھ تھیں اور انہیں بھی ویسی ہی عزت دی گئی۔ اپنی ثقافتی اقدار اور مذہب سے جڑے رہنے کے باوجود میں نے مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لاتعداد دوست بنائے۔

کسی نے بھی میری بیوی کے اسکارف پہننے پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی گریجوئیشن کی تقاریب اور شعبے میں منعقدہ دعوتوں میں شراب پینے سے عاجزانہ انکار پر کسی نے ناک بھنوئیں چڑھائیں۔

تین سال پہلے میں نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور اپنے دوسرے گھر آسٹریا سے آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ رخصت ہوا۔

میں پاکستان اس جذبے کے ساتھ لوٹا کہ یہاں بھی معیاری ریسرچ کے فروغ اور ملک کے اندر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کروں گا۔

جلد ہی میں لاتعداد مسائل سے گھر گیا اور میں یہ جان گیا کہ دنیا کے اس حصے میں ریسرچ کرنا پارک میں چہل قدمی جتنا آسان نہیں ہے۔

کئی مسائل کے علاوہ تعلیمی اداروں میں سیاسی بدعنوانی، بنیادی تعلیم کی خستہ حالی، اعلیٰ تعلیم کی بدتر پالیسیاں، ترقی کے لیے مضحکہ خیز معیار، ریسرچ پیپرز کے معیار کے بجائے تعداد پر زور نے جلد ہی میرے حوصلے پست کرنا شروع کردیے۔

مگر اپنے ہم خیال پاکستانی دوستوں کی مدد اور حوصلہ افزائی کے ساتھ میں نے ان مسائل کے حل کی تلاش جاری رکھی ہے۔

دو ماہ قبل میرا ریسرچ پیپر ایک یورپی کانفرنس کے لیے منظور ہوا اور مجھے 24 سے 26 فروری تک روم میں زبانی پریزنٹیشن کے لیے دعوت دی گئی۔

کانفرنس میں شرکت کے علاوہ میرا وہاں جانے کا سبب یہ بھی تھا کہ آسٹریا جا کر میں اپنے دوستوں اور اپنے پی ایچ ڈی سپروائزر سے ملاقات کرسکوں، ایک بار پھر ان گلیوں میں گھوموں جہاں میں پانچ سال چلتا رہا ہوں، یونیورسٹی کیمپس کی مختلف جگہوں پر چھوٹے چھوٹے الفاظ میں لکھی ہوئی تحریروں کو دیکھ سکوں، اس امید کے ساتھ وہ آج بھی باقی ہوں گی، اس گھر بھی جاؤں جہاں میں اور میری فیملی پانچ سالوں تک رہے۔

میں اتنا خوش تھا کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔

4 فروری کو میں نے تمام ضروری دستاویزات کے ساتھ ویزا درخواست جمع کروا دی۔ مجھے یقین تھا کہ 23 فروری کو میری روانگی سے دو دن قبل تک مجھے ویزا کے بارے میں فیصلے سے آگاہ کردیا جائے گا۔

میرا ویزا مسترد ہونے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ میں نے تمام خانے پر کیے — میں ایک یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوں اور جامع پروفائل کے ساتھ ایک متحرک ریسرچر ہوں۔ میں پانچ سالوں تک یورپ کے مختلف ممالک میں ٹھہرا ہوں اور ریسرچ کے شعبے میں سرگرمی کے ساتھ کام کیا ہے۔ میں نے سائنسی برادری میں ایک معزز مقام حاصل کیا ہے۔

درخواست مسترد ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

اگلے دن مجھے قونصل خانے سے ویزا افسر کی فون کال موصول ہوئی۔

انہوں نے کہا، ''ڈاکٹر خان، ہم آپ سے آپ کی ویزا درخواست کے حوالے سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ آپ آسٹریا میں قیام کرچکے ہیں، اس لیے ہمیں یہ خدشہ ہے کہ آپ نے جس مخصوص یورپی ریاست کے لیے درخواست جمع کروائی ہے، وہاں جانے کے علاوہ آپ آسٹریا بھی جاسکتے ہیں۔ اب مجھے ایمانداری کے ساتھ بتائیے کہ آپ کا منصوبہ کیا ہے؟''

میں بلاشبہ حیران رہ گیا۔ میں نے شینگن ویزا کے لیے درخواست جمع کروائی تھی اور اس ویزے پر میں 25 سے زائد یورپی ممالک کا دورہ بھی کر سکتا تھا — وہی ویزا جس پر میں وہاں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔

میں نے افسر کو جواب دیتے ہوئے کہا، ''جی ہاں، کانفرنس کے بعد میرا آسٹریا جانے کا ارادہ ہے۔ مگر بات کیا ہے؟''

انہوں نے جواب دیا،''میں معذرت چاہتا ہوں۔ آپ جب تک وعدہ نہیں کر لیتے کہ آپ صرف اسی ملک کا دورہ کریں گے جہاں کانفرنس منعقد کی گئی ہے، اس وقت تک ہم آپ کا شینگن ویزا منظور نہیں کرسکتے۔ پیرس حملوں کے بعد امیگریشن قوانین و ضوابط مزید سخت کردیے گئے ہیں۔ صورتحال بہت خراب ہے۔ امیگریشن کے دوران آپ سے بدسلوکی بھی ہوسکتی ہے۔ آپ کو ہمیں یقین دلانا ہوگا کہ آپ کسی اور ملک کا دورہ نہیں کریں گے۔''

یہ نہایت دل شکن بات تھی۔ یورپ میں پانچ سال قیام کے دوران میں اسے اپنا ہی وطن سمجھنے لگا تھا۔

آخر کیسے میرا وطن مجھے صرف ایک مخصوص علاقے کے سفر تک محدود کر سکتا ہے؟ بہرحال میں نے نا چاہتے ہوئے بھی انہیں یقین دلایا کہ میں آسٹریا نہیں جاؤں گا۔

16 فروری کو مجھے ویزا پک اینڈ ڈراپ سروس سے کال موصول ہوئی اور کہا گیا کہ میں وہاں آکر پاسپورٹ وصول کر لوں۔ نوابشاہ میں ہونے کی وجہ سے میں 17 فروری کو پاسپورٹ وصول کرنے کراچی گیا۔

میں نے اپنے دورے کی تمام تر تیاری کر لی تھی: جہاز کا ٹکٹ خرید لیا تھا، کانفرنس کی ریجسٹریشن فیس ادا کر چکا تھا، جس ملک میں کانفرنس تھی وہاں کے بس اور ٹرین ٹکٹ بھی خرید لیے تھے، یہاں تک کہ اپنا سامان بھی پیک کر چکا تھا۔

قونصلیٹ میں ویزا لینے کے کاؤنٹر پر مجھے میرا پاسپورٹ دیا گیا اور اس کے ساتھ ایک خط بھی تھا۔ جب میں نے خط کے مندرجات پڑھے تو مجھے شدید دھچکا لگا۔ خط میں لکھا تھا کہ میری درخواست مسترد کی جا چکی تھی۔

ایسا میرے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ آخر ایک تحقیقی دورے پر جانے کے لیے ویزا درخواست کیسے رد کی جاسکتی ہے؟

میں اس کانفرنس میں جا رہا تھا جس کا مقصد ریسرچ کو فروغ دینا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر کے محققین اپنے خیالات آپس میں بانٹتے ہیں۔

خط میں تحریر تھا:

''ایک یا اس سے زائد (شینگن) ریاستوں کے نزدیک آپ ملکی پالیسی، داخلی سلامتی، صحت عامہ یا ایک یا اس سے زیادہ ریاستوں کے بین الاقوامی تعلقات کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔''

میں نے خود کو کبھی اتنا بے عزت محسوس نہیں کیا تھا۔ خط میں لکھا تھا کہ مزید تفصیلات کے لیے قونصل خانے یا سفارت خانے سے رابطہ کیا جائے۔ بارہا کوششوں کے بعد بھی میں ویزا کے مسترد ہونے کا کوئی بھی اطمینان بخش جواز حاصل نہ کرسکا۔

شاید میرے دوسرے ہم وطن، جن کا مذہبی انتہاپسندی اور وحشیانہ فلسفے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے، دوسروں کی غلطیوں کی قیمت آنے والے دنوں میں چکاتے رہیں گے۔

محققین سے ایسا رویہ، جیسا میرے ساتھ ہوا، مایوس کن اور حوصلہ شکن ہے، خاص طور جب پاکستان گلوبل انوویشن انڈیکس (GII) کی حالیہ درجہ بندی میں 141 میں سے 131 نمبر پر ہے۔

سائنسی فورمز اور کانفرنسیں پوری دنیا کے محققین کے لیے اہم مسائل پر سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

ان حالات میں پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ کیسے ممکن ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

عمیر علی خان

ڈاکٹر عمیر علی خان قائدِ عوام یونیورسٹی آف انجینیئرنگ، نوابشاہ کے کمپیوٹر سسٹمز انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

وہ آسٹریا سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ریسرچ، سماجی مسائل اور تنقیدی سوچ ان کے پسندیدہ شعبے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔