نقطہ نظر

شکریہ پاکستان سپر لیگ

پی ایس ایل میں بھلے ہی آئی پی ایل جتنا پیسہ نہ ہو، لیکن اس نے ملک میں کرکٹ کا جذبہ بحال کر دیا ہے۔

مجھے 1992 کا ورلڈ کپ اتنا یاد نہیں۔ اس وقت میں ساتویں کلاس کے امتحانات دے رہا تھا، اور کافی میچز میں نے پیپرز کے درمیان وقفے کے دوران ہی دیکھے تھے۔

لیکن اس کے باوجود فائنل ایسی چیز تھی جسے ہر کسی نے خاص طور پر وقت نکال کر دیکھا۔

ابو کے مجھے اپنے کمرے میں جا کر پڑھائی کرنے کی تاکید کرنے سے پہلے مجھ سے جتنا بھی ہوسکا، میں نے یہ میچ دیکھا جو بلاشبہ پاکستان کی کھیل کی تاریخ کا عظیم ترین لمحہ تھا۔

پی ٹی وی نے اس دن 9 بجے کا خبرنامہ ملتوی کر دیا تھا (جو کہ ان دنوں غیر معمولی بات تھی) اور جب نشر ہوا تو یہ جیت کی خوشیاں منانے کے مناظر سے بھرپور تھا۔

اگلی دہائی میں میں نے یہ میچز لاتعداد بار دیکھے اور پاکستان کرکٹ کا ایک پر جوش پرستار بن گیا۔

پھر 1996 میں بنگلور میں شرمناک شکست ہوئی، 1999 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے خلاف فائنل میں بدترین شکست، کپتانی پر جھگڑے اور آئرلینڈ سے شکست جیسے واقعات ہوئے۔

خبروں میں ایک کے بعد ایک اسکینڈل دیکھ کر میرے اندر تبدیلی آنے لگی اور جلد ہی میرے لیے کرکٹ اردو شاعری کی اس گمشدہ محبت کی طرح بن گیا جس کی یاد افسوس اور جدائی کا احساس لے کر آتی ہے۔ ہاں ہم نے 2009 میں ٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے پر خوشی سے رقص کیا مگر مجھے یقین تھا کہ 1992 کی جیت نے جذبے کی جو آگ بھڑکائی تھی، وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔

پڑھیے: پاکستان سپر لیگ کی کامیابی کیوں ضروری ہے؟

تو جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے انعقاد کا اعلان کیا تو میں اس بارے میں زیادہ پر امید نہیں تھا۔ آئی پی ایل میں ہم لوگ بین الاقوامی کھلاڑیوں کا بغیر کسی جذباتی لگاؤ کے صرف کاروبار کی طرح کھیلنا دیکھ چکے ہیں۔

میں نے ہر ٹیم میں موجود کئی کھلاڑیوں کے بارے میں سوچا کہ یہ لوگ 'کرکٹ کے قاتل' ہیں۔

آپ اس ٹیم کو جتوانے کے لیے کیوں لڑیں گے جس سے کبھی آپ کا تعلق ہی نہیں رہا ہو؟

کیا پیسہ آپ کا یقین کسی ایسی چیز پر قائم کروا سکتا ہے جسے آپ کا ذہن تسلیم نہ کرتا ہو؟

پی ایس ایل کس طرح دوسری لیگز سے مختلف ہوگا؟

جب کسی ٹیم کی طرفداری کرنے کی بات آئی تو میں تھوڑا کنفیوژ تھا۔ کچھ کھلاڑی جنہیں میں بہت پسند کرتا ہوں، جیسے محمد عامر، کراچی میں شامل تھے۔ میں نے اپنی ساری عمر لاہور میں گزاری ہے اس لیے قلندرز میرے دل کے قریب رہے۔

شاہد آفریدی، محمد حفیظ اور وہاب ریاض ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے مجھے پشاور زلمی پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ میں پی ایس ایل کے دوران کافی حد تک غیر جانبدار ہی رہا، سب کی عزت کی لیکن کسی ایک کی پوری طرح حمایت نہیں کی۔

میں نے سوچا تھا کہ میرے پی ٹی آئی کے زیادہ تر دوست زلمی کی حمایت کریں گے۔ میں نے اس بارے میں فیس بک پر سوال بھی کیا۔ یقیناً بہت سے ایسا ہی کر رہے تھے لیکن ان میں سے کچھ دوسری ٹیموں کی طرف بھی تھے۔

میں نے سوچا کہ شاید علاقائی وفاداری کا عنصر لوگوں کو ٹیم کے انتخاب کے لیے مرغوب کرے گا، مگر نہیں۔ پنجاب کے بہت سے لوگ کوئٹہ کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور کچھ کراچی والے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی حمایت کر رہے تھے۔

کراچی کے کچھ لوگ اسلام آباد یونائیٹڈ کی حمایت صرف اس لیے کر رہے تھے کیونکہ مصباح اس ٹیم میں شامل تھے۔ کیا منفرد سماں تھا!

میرے خیال میں یہ ایک انتہائی دلچسپ بات تھی کہ کس طرح پی ایس ایل میں ہم اپنی مقامی ترجیحات کو نظرانداز کرتے ہوئے وسیع سوچ کے ساتھ میچز دیکھ رہے تھے۔

عام طور پر مانا جا رہا تھا کہ لاہور، کراچی یا پشاور میں سے کسی ایک کے سر پر جیت کا سہرا سجے گا۔ کسی نے بھی کوئٹہ کے بارے میں نہیں سوچا تھا، یہاں تک کہ سر ویوین رچرڈز کی موجودگی بھی کسی کو قائل نہ کرسکی۔

مگر کوئٹہ نے بہترین کھیل پیش کر کے مجھے اور زیادہ تر پنڈتوں کو حیران کر دیا۔

اور پھر لوگوں کی طرفداریاں تبدیل ہوتی نظر آئیں، اور زیادہ سے زیادہ لوگ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سحر میں مسحور ہونے لگے، جو ان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تھی جن کے جیتنے کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔

جانیے: بگ بیش، پاکستان سپر لیگ کے لیے مشعل راہ

ہماری بناوٹ کچھ ایسی ہے کہ ہم ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں جن کے جیتنے کی توقع نہیں ہوتی۔ کیا یہ ہمدردی کی وجہ سے ہے یا امید کی وجہ سے؟ شاید یہ اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ ہم سب لوگ اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں زوال کا شکار رہتے ہیں۔ یہ ہمارے ڈی این اے میں موجود ہے۔ یہ ایک قسم کی پہچان ہے جو ہم میں بنیادی سطح میں موجود ہے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مسلسل جیت اور مختلف ٹیمز کے نغموں کی گونج سے زیادہ اہم چیز وہ جذبہ ہے جو یہ ٹیمیں اس کھیل میں لے کر آئی ہیں۔

ایسا لگنے لگا تھا کہ پی ایس ایل کے انعقاد سے قبل تک پوری قوم ہی مایوسی کا شکار تھی۔

آئی پی ایل میں کھیلنے سے محرومی، اپنے وطن میں کھیلنے سے محروم، بال ٹیمپرنگ سے لے کر میچ فکسنگ جیسے مختلف اسکینڈلز کی وجہ سے ملامت سہی لیکن اس بار ایسا لگا جیسے وہ سب کہہ رہے ہوں،

ہماری طرف دیکھو۔ جو کچھ ہمارے بارے میں خبروں میں چلتا ہے، ہم اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔

کرس گیل کی خراب فارم اور میچز میں لاہور کی اوسط فیلڈنگ کو چھوڑیں۔ جب احسان عادل نے باؤلنگ کروائی تو مجھے اپنے ٹیپ بال سے کھیلنے والے دن یاد آگئے جب ایک اوور میں پورے میچ کا نقشہ تبدیل ہو جاتا تھا۔

جب وہاب ریاض کا اپنے دوست احمد شہزاد کے ساتھ ٹکراؤ ہوا تھا، تو بہت سے لوگوں نے اس حرکت کو کھلاڑی میں ظرف کی کمی کے طور پر تصور کیا، مگر مجھے لاہور کے سورج کے نیچے بتائے دنوں کی یاد دلا دی جب ہم اپنے پیارے دوستوں سے اس بات پر لڑتے جھگڑتے تھے کہ بال بیٹ پر لگی ہے کہ نہیں۔

جب کیون پیٹرسن نے چھلانگیں ماریں اور اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے بغل گیر ہوئے تو اس وقت انگریزوں کے بارے میں میرا یہ تصور بالکل ختم ہوگیا کہ وہ الگ تھلگ اور مغرور ہوتے ہیں۔

جب ڈیرین سیمی کو ہاتھوں سے نکلتے ہوئے میچ کے بارے میں پریشان بیٹھا دیکھا تو میں نے خود سے کہا کہ: ہاں کچھ مختلف ضرور ہے۔

جب میں نے سر ویوین رچرڈز کو کوئٹہ کے میچ تقریباً ہار جانے پر آبدیدہ ہوتے دیکھا تو اس وقت مجھے احساس ہوا کہ پی ایس ایل صرف بزنس نہیں ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ان چند لمحات میں ہم نے آپس میں آنسوؤں کے ایک مضبوط تعلق کو محسوس کیا، خوشی اور غم میں متحد ہونے کی صلاحیت، اور کھیل کے دھاگے سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جانے کی صلاحیت کو محسوس کیا۔

سر ویوین رچرڈز کا میدان میں اچھلنا وہ لمحہ ہے جو اس سال کرکٹ کی پہچان بنے گا۔

پی ایس ایل مالی طور پر انڈین پریمیئر لیگ یا دوسرے بگ بیشز جتنی مستحکم بھلے ہی نہ ہو، مگر اس میں ایک چیز موجود ہے، اور وہ ہے کرکٹ کے لیے جذبہ۔ اور جس طرح یہ جذبہ ایک عرصے سے ہمارے ملک میں معدوم تھا، اس کی بحالی میرے جیسے پرستاروں کے لیے بہت ہے۔

پڑھیے: آئی پی ایل بمقابلہ پی ایس ایل: ایک ہندوستانی کی نظر میں

پی ایس ایل میں ایک ہالی وڈ فلم کے تمام عناصر موجود ہیں: ایک مغلوب شخص کا نیچے سے اوپر اٹھنا، ایک کوچ کا ٹیم کو متحد کرنا، سب سے غیر متوقع وقت پر ایک ڈانس نمبر (احمد شہزاد یاد ہیں؟)، دو باسز (کراچی اور لاہور) کے درمیان لڑائی، اور ایک چھولے والے کے بیٹے (بسم اللہ خان) کی کامیابی۔

میرے پسندیدہ کھیل کو واپس لانے کے لیے پی ایس ایل کا شکریہ۔

انگلش میں پڑھیں۔

اختر عباس

اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔