سوات: لوگ پھر ہنسے دیکھو
جب میں اس گاؤں سے جاؤں گا، تو یہ گاؤں اکیلا ہو جائے گا۔
روتے روتے آؤ میرا آخری دیدار تو کر لو
(پشتو کے شاعر بابا غنی خان کے کلام سے ماخوذ)
سوات وہ دلہن ہے جس کی مانگ بھی اجڑی اور کوکھ بھی، جس کا نوحہ لکھنے والے ہاتھ بھی لکھتے لکھتے شل ہوگئے۔ انتہا پسندی سے لے کر سیلاب و زلزلہ، کون سی قدرتی آفات ہیں جو اس وادی پر نازل نہیں ہوئیں، پھر بھی زندگی رواں دواں ہے۔ لوگ ہنستے ہیں، بچے کھیلتے ہیں، عورتیں شرماتی ہیں، شہر پھر بسے دیکھو، لوگ پھر ہنسے دیکھو۔
ہاں، سوات وہ دلہن ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس پر پھولوں نہیں بلکہ پتھروں کی بارش کی گئی ہو۔ فوجی چوکیوں پر اندراج کرواتے جب میں سوات پہنچا تو شام ڈھل چکی تھی۔ سایہ پھیل چکا تھا۔ آسمان بجھ چکا تھا۔ افق پر پہاڑوں کے اوپر کالی سیاہی نما بادلوں کی ہلکی تہہ ہوا کے دوش پر آہستہ رو تیر رہی تھی۔
پورا چاند ہلکے بادلوں میں ڈھکا اپنے گرد بڑے سے ہالے کا حصار بنائے وادی پر ٹھہرا تھا۔ برقی قمقموں نے پہاڑوں کو اجال دیا تھا۔ جگنوؤں جیسی ٹم ٹم لگی تھی۔ گاڑی بل کھاتے راستوں پر چلی جا رہی تھی۔ چاند بادلوں کی تہہ سے جھانکتا رہا۔ میں آنکھیں میچے لمبی سانسیں لیتا خزاں رسیدہ درختوں کی باس کو پھیپھڑوں میں سموتا رہا۔ کبھی آنکھ کھول کر جگنوؤں کے جھنڈ کو دیکھتا اور آخری نظر ڈال کر آنکھیں پھر بند کر لیتا۔ کسی موڑ سے گاڑی مڑتی تو نیا منظر آنکھوں میں سجانے کو پھر آنکھیں کھول دیتا۔ آنکھ مچولی چلتی رہی، چاند کی بھی میری بھی، وادی دمکتی رہی۔